March 29, 2024

قرآن کریم > الـجـمـعـة >sorah 62 ayat 5

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ 

جن لوگوں پر تورات کا بوجھ ڈالا گیا، پھر انہوں نے اُس کا بوجھ نہیں اُٹھایا، ان کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہو۔ بہت بُری مثال ہے اُن کی جنہوں نے اﷲ کی آیتوں کو جھٹلایا، اور اﷲ ایسے ظالموں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا

آيت 5:  مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا:  «مثال ان لوگوں كى جو حاملِ تورات بنائے گئے، پھر وه اس كے حامل ثابت نه هوئے، اُس گدھے كى سى (مثال) هے جو اُٹھائے هوئے هو كتابوں كا بوجھ».

جب وه لوگ حاملِ تورات هو كر بھى تورات سے بيگانه رهے تو ان ميں اور اس گدھے ميں كيا فرق ره گيا جو اپنى پيٹھ پر كتابوں كا بوجھ اٹھائے پھر رها هے. ظاهر هے ايك گدھے پر آپ مكالماتِ افلاطون لاد ديں يا انسائيكلوپيڈيا آف برٹانيكا كى تمام جلديں ركھ ديں، اس سے اس كے اندر نه تو كوئى فلسفيانه بصيرت پيدا هو گى اور نه هى اس كے دماغ ميں كوئى معلومات منتقل هو سكيں گى...... آيت كے اس حصے ميں لفظ: حمل مختلف صيغوں ميں تين مرتبه آيا هے. حمل ايسے بوجھ كو كها جاتا هے جسے آدمى اٹھا كر چل سكے. اس معنى ميں حمّال (قلى) اس شخص كو كها جاتا هے جو بوجھ وغيره ايك جگه سے اٹھا كر دوسرى جگه لے جائے اور يهى مفهوم عورت كے حمل كا بھى هے: ﴿حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ﴾ {لقمان: 14}. «اس كو اٹھائے ركھا اس كى ماں نے (اپنے پيٹ ميں) كمزورى پر كمزورى جھيل كر». عورت كو يه حمل اٹھانے ميں مشقت اور تكليف كا سامنا تو كرنا پڑتا هے، ليكن اس كے ليے اس بوجھ كو اٹھائے پھرنا ممكن هوتا هے. اس كے مقابلے ميں اِصْر (البقرة: 286، الاعراف: 157) ايسا بوجھ هے جس كا اٹھانا انسان كے ليے ممكن نه هو اور وه اس كے نيچے دب كر ره جائے.

بهرحال الله تعالى جس قوم كو اپنى كتاب عطا كرتا هے اس قوم پر اس كتاب كے حقوق كا بوجھ بھى ڈالتا هے. ان حقوق پر ايمان لانے، اس كے احكام پر عمل كرنے اور اس كے تعليمات كى تبليغ واشاعت كى ذمه دارى كا بوجھ بھى شامل هے: ﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ﴾ {آل عمران: 187}. «اور ياد كرو جبكه الله نے ان لوگوں سے ايك قول وقرار ليا تھا جن كو كتاب دى گئى تھى كه تم لازمًا اسے لوگوں كے سامنے واضح كرو گے اور اسے چھپاؤ گے نهيں». يه ميثاق اهلِ تورات سے ليا گيا تھا جبكه قرآن مجيد ميں اهلِ كتاب سے متعلق ايسے واقعات اور ايسى مثالوں كا ذكر هميں خبردار كرنے كے ليے آيا هے، كه اے اهلِ قرآن! تمهيں بھى اپنى كتاب كے حقوق كما حقه ادا كرنے هيں اور اس كى تعليمات كو لوگوں كے ليے عام كرنا هے. ورنه كتابوں كا بوجھ اٹھانے والے گدھے كى مثال كا اطلاق تم پر بھى هو گا. اس حوالے سے حضرت عبيده المليكى رضى الله عنه كا روايت كرده حضور صلى الله عليه وسلم كا يه فرمان بهت اهم هے:

« يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ وَاتْلُوهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ مِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَفْشُوهُ وَتَغَنُّوهُ وَتَدَبَّرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ».

«اے قرآن والو! تم قرآن كو تكيه (ذهنى سهارا) نه بنا لينا، بلكه تمهيں چاهيے كه رات اور دن كے اوقات ميں اس كى تلاوت كيا كرو جيسا كه اس كى تلاوت كا حق هے، اور اس كو پھيلاؤ، اور اس كو خوش الحانى سے پڑھو، اور اس ميں تدبر كرو، تاكه تم فلاح پا جاؤ».

مقامِ عبرت هے! آج هم قرآن مجيد كے حقوق ادا كرنے كے ليے تو غور كرنے كو بھى تيار نهيں، ليكن اس كو تكيه بنانے كے نت نئے طريقے ايجاد كرنے ميں هم بڑى مهارت ركھتے هيں. اس كى زنده مثال ايوبى دور كى يادگار، سونے كى تاروں سے لكھا هوا چاليس من وزنى قرآن مجيد كا وه نسخه هے جسے هم نے پچھلے پچاس سال سے لاهور ميں نمائش كے ليے ركھا هوا هے.

بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ:  «بهت برى مثال هے اس قوم كى جنهوں نے الله كى آيات كو جھٹلايا».

يه يهوديوں كى طرف سے كلام الله كى عملى يا حالى تكذيب كا ذكر هے. قبل ازيں سورة الواقعه كى آيت:82 كے حوالے سے وضاحت كى جا چكى هے كه بالكل اسى طور سے هم بھى قرآن مجيد كو جھٹلا رهے هيں. ظاهر هے اپنى زبان سے نه تو يهودى تورات كى تكذيب كرتے تھے اور نه هى هم قرآن كے بارے ميں ايسا سوچ سكتے هيں. ليكن كيا هم واقعى قرآن مجيد كى عملى يا حالى تكذيب كے مرتكب هو رهے هيں؟ اس سوال كا جواب جاننے كے ليے ايك ايسے تعليم يافته نوجوان كا تصور كريں جو مزيد تعليم حاصل كرنے كے ليے پاكستان سے امريكه گيا هے. اس نوجوان سے اگر پوچھا جائے كه كيا قرآن مجيد الله كا كلام هے تو وه كهے گا: كيوں نهيں! ميں مانتا هوں كه يه الله كا كلام هے. ليكن اگر اس سے دوسرا سوال يه كيا جائے كه آپ نے اس كو كتنا پڑھا هے اور اس كى تعليمات كو جاننے اور سمجھنے كے ليے آپ نے كس قدر محنت كى هے تو وه (الا ما شاء الله) يهى جواب دے گا كه مجھے اس كا موقع نهيں ملا. تو كيا اس نوجوان كا يه عمل قرآن مجيد كى تكذيب نهيں كر رها هے؟ كيا اس كا حال چيخ چيخ كر گواهى نهيں دے رها كه اس كے نزديك اس كى وه ڈگرى قرآن مجيد سے زياده اهم هے، جس كے ليے وه سات سمندر پار آكر ديارِ غير كى خاك چھان رها هے، ليكن قرآن مجيد كو سمجھنے كى كبھى اس نے هلكى سى كوشش بھى نهيں كى.

وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ:  «اور الله ايسے ظالموں كو (زبردستى) هدايت نهيں ديتا».

الله تعالى كى هدايت معاذ الله كوئى ايسى حقير شے نهيں جسے هر شخص كى جھولى ميں زبردستى ڈال ديا جائے. يه تو صرف اسى شخص كو ملے گى جس كے دل ميں اس كے حصول كى تمنا هو گى اور جو اس كے حصول كے ليے تگ ودو كرے گا.

UP
X
<>