April 26, 2024

قرآن کریم > الـمنافقون >sorah 63 ayat 6

سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭ لَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ 

(اے پیغمبر !) ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں ، چاہے تم ان کیلئے مغفرت کی دُعا کرو یا نہ کرو، اﷲ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔ یقین جانو اﷲ ایسے نافرمانوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا

آيت 6:  سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ:  «(اے نبى صلى الله عليه وسلم!) ان كے ليے برابر هے كه آپ ان كے ليے استغفار كريں يا ان كے ليے استغفار نه كريں».

لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ:  «الله ان كو هرگز معاف نهيں كرے گا».

يهى مضمون اس سے زياده سخت الفاظ ميں سورة التوبه ميں بھى آ چكا هے. وهاں ان لوگوں كے بارے ميں فرمايا گيا: ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ﴾  {آيت: 80}.

«(اے نبى صلى الله عليه وسلم!) آپ خواه ان كے ليے استغفار كريں يا ان كے ليے استغفار نه كريں، اگر آپ ستّر مرتبه بھى ان كے ليے استغفار كريں گے تب بھى الله انهيں هرگز معاف نهيں فرمائے گا». ليكن حضور صلى الله عليه وسلم كى نرم دلى اور مروّت كى اپنى شان هے. آپ صلى الله عليه وسلم نے اس آيت كے نزول كے بعد ايك موقع پر مسكراتے هوئے ارشاد فرمايا تھا:  «لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِيْنَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا». «اگر مجھے معلوم هوتا كه ستّر سے زياده مرتبه استغفار كرنے سے اس كى معافى هو سكتى هے تو ميں اس پر اضافه كر ليتا». واضح رهے كه يهاں ستر كا عدد محاورے كے طور پر آيا هے. مراد اس سے يه هے كه اب ان كے ليے آپ صلى الله عليه وسلم كا استغفار كرنا انهيں كچھ بھى فائده نهيں دے سكتا. ان كے دلوں ميں آپ كى عداوت اب اس نهج پر پهنچ چكى هے كه ان كى بخشش ممكن هى نهيں.

اب آينده آيات ميں ايك واقعے كے حوالے سے اهلِ ايمان كے ساتھ منافقين كى عداوت كا نقشه دكھايا جا رها هے. يه واقعه غزوه بنى مصطلق سے واپسى كے سفر ميں پيش آيا تھا. مريسيع كے كنويں كے قريب جهاں لشكر كا پڑاؤ تھا، دو مسلمانوں كا پانى بھرنے پر آپس ميں جھگڑا هو گيا. ان ميں سے ايك انصار كا حليف تھا جبكه دوسرا حضرت عمر رضى الله عنه كا خادم تھا، جس نے جذبات ميں آ كر اس كو ايك لات رسيد كر دى. اس پر منافقين نے اس كو بڑھا چڑھا كر مهاجرين اور انصار كے مابين جھگڑے كا رنگ دے ديا. عبد الله بن اُبى نے، جو اس طرح كے مواقع كى هميشه گھات ميں رهتا تھا، موقع سے فائده اٹھا كر مهاجرين كے خلاف انصار كے جذبات بھڑكانے كے ليے نهايت زهر آلود فقرے كهے. اس نے انصار كو مخاطب كر كے كها كه مدينه والو! يه همارے گھر ميں پناه پا كر اب هم هى پر غرّانے لگے هيں. سچ كها هے جس نے كها هے كه سَمِّنْ كَلْبَكَ يَاْكُلْكَ كه تم اپنے كتے كو كھلا پلا كر خوب موٹا كرو تاكه وه تم هى كو كاٹے. تم نے ان بے گھر لوگوں كو سر چھپانے كى جگه دى،ان كى مدد كى، ان كو كھلايا پلايا اور اپنے مال ميں ان كو حصه دار بنايا. يه تمهارى اپنى غلطى كا خميازه هے جو تمهيں بھگتنا پڑ رها هے. اگر تم ان كى امداد سے هاتھ كھينچ ليتے تو يه كب كے يهاں سے بھاگ كھڑے هوتے..... خدا كى قسم! اب هم پلٹے تو جو باعزت هيں وه رذيلوں كو مدينه سے نكال باهر كريں گے. عبد الله بن اُبى كى يه بكواس وهاں موقع پر موجود ايك نوجوان صحابى حضرت زيد بن ارقم رضى الله عنه سن رهے تھے. انهوں نے حضور صلى الله عليه وسلم كى خدمت ميں پيش هو كر سارا واقعه بيان كر ديا. حضور صلى الله عليه وسلم نے عبد الله بن اُبى كو بلا كر دريافت فرمايا تو وه صاف مكر گيا، بلكه اس نے الٹا احتجاج كيا كه كيا آپ ميرے معاملے ميں اس چوكرے (حضرت زيد بن ارقم رضى الله عنه) كى بات پر يقين كريں گے؟ اس طرح حضرت زيد كى پوزيشن بڑى خراب هو گئى. ان آيات كے نزول كے بعد جب واقعه كى تصديق هو گئى تو حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت زيد بن ارقم كى خصوصى طور پر دل جوئى فرمائى اور شفقت سے ان كا كان مروڑتے هوئے فرمايا كه «لڑكے كے كان نے غلط نهيں سنا تھا!»

اس واقعه كے حوالے سے يه نكته بهت اهم هے كه عبد الله بن اُبى كا جرم ثابت هو جانے كے بعد بھى حضور صلى الله عليه وسلم نے اس كے خلاف كوئى اقدام نهيں كيا. اس كى وجه يه تھى كه اس وقت تك عملًا اسلامى رياست قائم نهيں هوئى تھى. اس بارے ميں عام طور پر تو يهى سمجھا جاتا هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كے مدينه تشريف لے جانے كے فورًا بعد هى وهاں باقاعده اسلامى رياست وجود ميں آ گئى تھى اور حضور صلى الله عليه وسلم كو باقاعده ايك سربراهِ رياست اور سربراه حكومت كى حيثيت حاصل هو گئى تھى، ليكن اس دور كے معروضى حقائق اور واقعات سے ثابت هوتا هے كه يه خيال درست نهيں هے. مثلًا هم ديكھتے هيں كه غزوه اُحد كے موقع پر اسلامى لشكر كو چھوڑ كر جانے والے تين سو افراد سے كسى قسم كا تعرض نهيں كيا گيا. اسى طرح يه بھى حقيقت هے كه منافقين مدينه اپنے فيصلے حضور صلى الله عليه وسلم كے بجائے يهوديوں سے كرواتے تھے. ظاهر هے كسى رياست ميں تو ايسا نهيں هوتا كه اس كى ايك تهائى فوج دشمن كے مقابلے سے بھاگ جائے اور ان ميں سے كسى ايك فرد سے بھى اس بارے ميں كوئى باز پرس نه هو، اور نه هى كسى رياست كى عملدارى ميں يه ممكن هے كه اس كا كوئى شهرى رياست كى عدالت كو چھوڑ كر اپنا مقدمه كهيں اور لے جائے. بهرحال اس حوالے سے اصل صورت حال يه تھى كه علاقے كى واحد منظم اور طاقتور جماعت كے سربراه كى حيثيت سے حضور صلى الله عليه وسلم كو مدينه ميں معاشرتى اور سياسى لحاظ سے ايك خصوصى اور ممتاز مقام تو هجرت كے فورًا بعد هى حاصل هو گيا تھا، البته آپ كے تحت ايك باقاعده رياست فتح مكه كے بعد قائم هوئى. يهى وجه هے كه 9 هجرى ميں غزوه تبوك سے ره جانے والوں كا سخت مؤاخذه هوا.

بهرحال عبد الله بن ابى كے معاملے ميں حضور صلى الله عليه وسلم نے بهت درگزر سے كام ليا. واقعه افك ميں اس كے كردار سے حضور صلى الله عليه وسلم بهت آزرده هوئے تھے. اس دوران تو ايك موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے يهاں تك فرما ديا تھا كه كيا كوئى ايسا شخص نهيں هے جو اس شخص كى ايذا سے مجھے بچا سكے.؟ ليكن آپ صلى الله عليه وسلم كا يه فرمان بھى محض آپ كے جذبات كا اظهار تھا، جبكه آپ نے اس كے خلاف كسى عملى اقدام كا حكم اس وقت بھى نهيں ديا. البته اس موقع پر اوس كے سردار حضرت سعد بن معاذ رضى الله عنه نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے عرض كيا كه حضور! آپ مجھے حكم ديں، ميں اس شخص كا كام تمام كرتا هوں. اس پر خزرج كے سردار حضرت سعد بن عباده رضى الله عنه نے حضرت سعد بن معاذ رضى الله عنه كو مخاطب كر كے كها كه آپ نے عبد الله بن اُبى كے قتل كى بات اس ليے كى هے كه اس كا تعلق قبيله خزرج سے هے! اور پھر حضرت سعد بن عباده هى نے حضور صلى الله عليه وسلم كو مشوره ديا تھا كه حضور! آپ اس شخص كے معاملے ميں نرمى سے كام ليں. اس كا اصل مسئله يه هے كه هم اسے اپنا بادشاه بنانے كا فيصله كر چكے تھے اور اس كے ليے هم نے سونے كا تاج بھى تيار كر ليا تھا كه اسى اثناء ميں آپ صلى الله عليه وسلم مدينه تشريف لے آئے. اس طرح اس كے سارے خواب بكھر گئے. همارے قبيلے پر ابھى تك اس كا اثر ورسوخ موجود هے، اس ليے حكمت اور مصلحت كا تقاضا يهى هے كه اس كے خلاف سختى نه كى جائے. بهرحال اس سارى تفصيل كا خلاصه يه هے كه اُس  وقت تك باقاعده اسلامى رياست اور حكومت ابھى وجود ميں نهيں آئى تھى اور ابھى قبائلى عصبيتيں بھى كسى نه كسى حد تك موجود تھيں. يعنى مجموعى طور پر حالات ايسے نهيں تھے كه حضور صلى الله عليه وسلم ان پهلوؤں كو نظر انداز كر كے عبد الله بن اُبى كے خلاف كوئى سخت اقدام كرنے كا حكم ديتے. اس ليے آپ نے اس كا يه جرم بھى نظر انداز كر ديا.

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ:  «يقينًا الله ايسے فاسقوں كو هدايت نهيں ديتا».

UP
X
<>