April 25, 2024

قرآن کریم > الـتغابن >sorah 64 ayat 6

ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا ۡ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ 

یہ سب کچھ اس لئے ہو اکہ اُن کے پاس اُن کے پیغمبر روشن دلائل لے کر آتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ : ’’ کیا (ہم جیسے) انسان ہیں جو ہمیں ہدایت دیں گے؟ غرض انہوں نے کفر اِختیار کیا، ا ور منہ موڑا، اور اﷲ نے بھی بے نیازی برتی، اور اﷲ بالکل بے نیاز ہے، بذاتِ خود قابلِ تعریف !

آيت 6:  ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ:  «يه اس ليے هوا كه ان كے پاس ان كے رسول آتے رهے واضح نشانياں لے كر»

فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوْا:  «تو انهوں نے كها كه كيا انسان هميں هدايت ديں گے؟ پس انهوں نے كفر كيا اور رخ پھير ليا»

وَاسْتَغْنَى اللَّهُ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ:  «اور الله نے بھى (ان سے) بے نيازى اختيار كى. اور الله تو هے هى بے نياز، ستوده صفات».

يعنى هر قوم كے لوگ صرف اس بنا پر اپنے رسول كا انكار كرتے رهے كه يه تو همارى طرح كا بشر هے. يه رسول كيسے هو سكتا هے؟ ان كے اس رويے كى وجه سے الله تعالى نے بھى ان لوگوں كو ان كے حال پر چھوڑ ديا كه تم جدھر جانا چاهتے هو چلے حاؤ. يهاں پر يه نكته بھى سمجھ لينا ضرورى هے كه جيسے رسالت كا انكار بر بنائے بشريت (كه بشر رسول نهيں هو سكتا) غلط هے، ايسے هى بشريت كا انكار بر بنائے رسالت (كه رسول بشر نهيں هو سكتا) بھى غلط هے. يه دراصل ايك هى سوچ كے دو رُخ هيں. جيسے انسانى جسم كے اندر ايك بيمارى كسى ايك عضو پر كينسر كى شكل ميں حمله كرتى هے تو كسى دوسرے عضو پر اثر انداز هونے كے ليے كسى اور روپ ميں ظاهر هوتى هے. چنانچه اس نظرياتى بيمارى كى ابتدائى صورت يه سوچ تھى كه ايك انسان يا بشر الله تعالى كا رسول نهيں هو سكتا. چنانچه هر قوم نے اپنے رسول پر بنيادى اعتراض يهى كيا كه يه تو بشر هے، يه بالكل همارے جيسا هے، همارى طرح كھاتا پيتا هے اور همارى طرح هى چلتا پھرتا هے. فلاں كا بيٹا هے، فلاں كا پوتا هے، همارے سامنے پلا بڑھا هے. يه رسول كيسے هو سكتا هے؟ يعنى انهوں نے بشريت كى بنياد پر رسول كى رسالت كا انكار كر ديا. بعد ميں اس بيمارى نے دوسرى شكل اختيار كر لى، وه يه كه جس كو رسول مان ليا پھر اُسے بشر ماننا مشكل هو گيا. كسى نے اپنے رسول كو خدا مان ليا تو كسى نے خدا كا بيٹا. صرف اس ليے كه اُسے بشر ماننا انهيں گوارا نهيں تھا. اسى وجه سے قرآن مجيد ميں حضور صلى الله عليه وسلم سے بار بار كهلوايا گيا: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ﴾ {الكهف: 110}. كه اے نبى صلى الله عليه وسلم آپ ڈنكے كى چوٹ پر كهيے اور بار بار كهيے كه ميں تمهارى طرح كا ايك بشر هوں. هاں مجھے يه امتياز حاصل هے كه مجھ پر وحى نازل هوتى هے. ليكن قرآن مجيد كے واضح اور تاكيدى احكام كے باوجود مذكوره نظريات كے اثرات همارى صفوں ميں بھى در آئے، بلكه همارے هاں تو يه بھى هوا كه اس مسئلے كے تدارك كے نام پر كچھ لوگ دوسرى انتها پر چلے گئے. چنانچه اس حوالے سے اگر كسى نے «بڑے بھائى» كى مثال بيان كى يا اسى نوعيت كى كوئى دوسرى دليل پيش كى تو اس نے بھى حد ادب سے تجاوز كيا. ظاهر هے جب فريقين ايك دوسرے كو غلظ ثابت كرنے كے ليے بحث وتكرار كريں گے تو نامناسب الفاظ كا استعمال بھى هو گا اور غلطياں بھى هوں گى.

بهرحال اس ميں تو كوئى شك نهيں كه الله تعالى كے تمام پيغمبر انسان هى تھے، ليكن پيغمبروں كے بعض خصائص ايسے بھى هوتے هيں جو عام انسانوں كے نهيں هو سكتے. حضور صلى الله عليه وسلم كى سيرت ميں ايسے كئى خصائص كا ذكر ملتا هے. مثلًا جب صحابه رضى الله عنهم نے حضور صلى الله عليه وسلم سے عرض كى كه آپ خود تو صومِ وصال (كئى كئى دنوں كا روزه اور اس طرح كے يكے بعد ديگرے كئى روزے ركھنے) كا اهتمام فرماتے هيں ليكن هميں اس كى اجازت نهيں ديتے، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:  « أَيُّكُمْ مِثْلِي، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ».  «تم ميں سے كون هے جو مجھ جيسا هے؟ ميں تو اس حال ميں رات گزارتا هوں كه ميرا رب مجھے كھلاتا هے اور پلاتا هے». اسى طرح حضور صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے: «فَوَاللهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ رُكُوعُكْم وَلاَ سُجُودُكُمْ، إِنِّي لأَرَاكُمْ وَرَاءَ ظَهْرِي».  «الله كى قسم! (نماز باجماعت ميں) تمهارے ركوع اور تمهارے سجدے مجھ پر مخفى نهيں هوتے، ميں تو اپنے پس پشت بھى تمهيں ديكھ رها هوتا هوں».. صحيح بخارى كى روايات ميں «وَلاَ خُشُوعُكُمْ» كے الفاظ بھى هيں كه نماز ميں تمهارا خشوع بھى مجھ سے مخفى نهيں هوتا. پھر معراج كے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم كا راتوں رات مكه سے بيت المقدس تشريف لے جانا، اس كے بعد آسمانوں كى سير كرنا اور سدرة المنتهى كے مقام پر خصوصى كيفيات كا مشاهده كرنا، يه سب آپ صلى الله عليه وسلم كے امتيازى خصائص هيں.

دوسرى طرف اس ميں بھى كوئى شك نهيں كه بنيادى طور پر آپ صلى الله عليه وسلم انسان تھے اور انسانى داعيات اور ميلانات ركھتے تھے..... آپ كو چوٹ لگتى تو درد محسوس كرتے، جنگ اُحد ميں زخم آيا تو خون كا فواره چھوٹ پڑا، بيٹا فوت هوا تو آنكھوں سے آنسو رواں هو گئے. كبھى جذبات كى ايسى كيفيت بھى هوئى كه زبان سے بددعا بھى نكل گئى:

«كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمًا خَضَبُوا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ بِالدَّمِ!» الحديث.

          «الله تعالى اُس قوم كو كيسے كامياب كرے گا جس نے اپنے نبى كا چهره خون سے رنگين كر ديا! ...».

بهرحال بلاشبه آپ صلى الله عليه وسلم بشر تھے، جيسا كه قرآن مجيد هميں تكرار كے ساتھ بتاتا هے، ليكن آپ صلى الله عليه وسلم كى بشريت كو الله تعالى نے وه مقام عطا فرمايا تھا جو آپ كے شايان شان تھا....... اب اگلى آيت ميں ايمان بالآخرت كا ذكر هے:

UP
X
<>