April 25, 2024

قرآن کریم > الـتحريم >sorah 66 ayat 4

إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ

(اے نبی کی بیویو !) اگر تم اﷲ کے حضور توبہ کر لو (تو یہی مناسب ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل مائل ہوگئے ہیں ، اور اگر تم نبی کے مقابلے میں تم نے ایک دوسری کی مدد کی، تو (یاد رکھو کہ) اُن کا ساتھی اﷲ ہے، اور جبرئیل ہیں ، اور نیک مسلمان ہیں ۔ اور اس کے علاوہ فرشتے ان کے مددگار ہیں

آيت 4: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا: «اگر تم دونوں الله كى جناب ميں توبه كرو تو (يهى تمهارے ليے بهتر هے، كيوں كه) تمهارے دل تو مائل هو هى چكے هيں.»

        اس آيت كى تعبير ميں اهل تشيع كا نقطه نظر يقيناً انتها پسندانه هے، ليكن مقام حيرت هے كه همارے بعض مترجمين اور مفسرين نے بھى انهى كى روش اختيار كى هے. البته مولانا حميد الدين راهى رحمه الله نے عربى اسلوب كو مد نظر ركھتے هوئے اس آيت كى جو وضاحت كى هے ميرى رائے ميں وه بهت جامع اور بالكل درست هے. اس حوالے سے ميں ذاتى طور پر خود كو مولانا صاحب كا احسان مند مانتا هوں كه ان كى اس تحرير كى بدولت مجھے قرآن كے اس مقام كا درست فهم اور شعور نصيب هوا.

        اهل تشيع كے هاں (فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا) كا ترجمه يوں كيا جاتا هے كه تم دونوں كے دل ٹيڑھے هوچكے هيں. دراصل صغت ايسا لفظ هے جس ميں منفى اور مثبت دونوں معنى پائے جاتے هيں. جيسے مالَ إِلَى كے معنى هيں كسى طرف ميلان يا توجه هونا جب كه مَالَ عَنْ كے معنى هيں كسى سے نفرت هوجانا. اسى طرح لفظ رَغِبَ إلَى راغب هونا، محبت كرنا اور رَغِبَ عَنْ نا پسند كرنا كے معنى ديتا هے. صغى كا معنى هے جھك جانا، مائل هوجانا. جب ستارے ڈوبنے لگتے هيں تو عرب كهتے هيں: صَغَتِ النُّجُوْمُ. چناں چه يهاں اس لفظ كا درست مفهوم مائل هوجانا هى هے كه اب تمهارے دل ميں تو يه بات آهى چكى هے، اور تمهارے دل تو خطا كو تسليم كر هى چكے هيں، بس اب تم زبان سے اعتراف كرلو. جيسے آدم عليه السلام كو اپنى خطا كا احساس هوگيا تو الله تعالى نے آپ كو اعتراف اور توبه كے الفاظ بھى سكھاديے: (فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ) (البقرة: 37) اور آپ نے سكھائے هوئے طريقے سے توبه كرلى.

        اس بارے ميں عام رائے يه هے كه مذكوره بات حضرت حفصه اور عائشه رضى الله عنهما كو بتائى تھى. چوں كه حضرت ابو بكر اور حضرت عمر رضى الله عنهما كو دربارِ رسالت ميں خصوصى مقام و مرتبه حاصل تھا اسى نسبت سے حضرت عائشه اور حضرت حفصه رضى الله عنهما بھى ازواج مطهرات ميں ممتاز تھيں.

وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ: «اور اگر تم دونوں نے ان كے خلاف گٹھ جوڑ كرليا هے»

يه بهت سخت الفاظ هيں. قرآن مجيد كے ايسے مقامات كو سمجھنے كے ليے بنيادى طور پر يه اصول ذهن ميں ركھنا چاهيے كه الرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ، والعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقَّى. اور يه بھى كه جن كے مراتب جتنے بلند هوں ان كا هلكا سا سهو بھى الله تعالى كے هاں قابل گرفت هوجاتا هے. جيسے عربى كا مقوله هے: حسنات الابرار سيئات المقربين يعنى عام لوگوں كے ليے جو كام بڑى نيكى كا سمجھا جائے گا هوسكتا هے كه وهى كام الله تعالى كے مقربين اولياء اور محبوب بندوں كے ليے تقصير قرار پائے اور ان كے مرتبه كے اعتبار سے قابل گرفت شمار هوجائے. اسى قاعده اور اصول كے تحت يهاں يه سخت الفاظ آئے هيں كه اگر آپ لوگوں نے همارے رسول صلى الله عليه وسلم كے خلاف كوئى متحده محاذ بنانے كا فيصله كرليا هے تو سن لو:

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ: «ان كا پشت پناه تو خود الله هے اور جبريل اور تمام صالح مؤمنين، اور مزيد برآں تمام فرشتے بھى ان كے مددگار هيں.»

لهذا بهتر تو يه هے كه تم لوگ همارے رسول كے ساتھ جو بھى معامله كرو ان كے مقام و مرتبے كى مناسبت سے كيا كرو. تمهارا مياں بيوى كا رشته اپنى جگه ليكن يه حقيقت كسى لمحه بھى نظر انداز نهيں هونى چاهيے كه وه الله كے رسول هيں اور تم سب امتى هو. تمهارا ان كے ساتھ بنيادى تعلق يهى هے. اس تعلق كے مقابلے ميں تمهارے باقى تمام رشتوں كى حيثيت ثانوى هے. اس كے بعد آگے مزيد سخت الفاظ آرهے هيں:

UP
X
<>