April 25, 2024

قرآن کریم > الـملك >sorah 67 ayat 10

وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ

اور وہ کہیں گے کہ : ’’ اگر ہم سن لیا کرتے اور سمجھ سے کام لیا کرتے تو (آج) دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔‘‘

آيت 10: وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ: «اور وه كهيں گے كه اگر هم سنتے اور عقل سے كام ليتے»

 مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ: «تو هم نه هوتے ان جهنم والوں ميں سے۔»

          اس آيت ميں انبياء و رسل كي تكذيب كرنے والوں كے اصل گناه كي نشان دهى كردى گئى هے۔  اس اعتبار سے قران مجيد كا يه مقام خصوصي اهميت كا حامل هے۔ ايسے تمام لوگوں كا بنيادي اور اصل جرم يه تھا كه انھوں نے اپنے پيغمبروں كي دعوت سنى ان سنى كردى تھى۔ اس دعوت پر انھوں نے كبھى سنجيدگى سے غور هى نه كيا اور نه هى پيغمبروں كى باتوں كو كبھى عقل كى كسوٹى پر پركھنے كى زحمت گوارا كى۔ ظاهر هے كه الله تعالى نے انسان كو ديكھنے، سننے، سمجھنے وغيره كي صلاحيتيں اسى ليے تو دى هيں كه وه ان صلاحيتوں كو كام ميں لائے اور اپنے نفع و نقـصان كے حوالے سے درست فيصلے كرے۔ اسى بنياد پر آخرت ميں انسان كى ان تمام صلاحيتوں كا احتساب بھى هوگا: (إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً) (بني اسرائيل: 36) «يقيناً سماعت، بصارت اور عقل سبھى كے بارے ميں باز پرس كى جائے گى»۔ بهر حال الله تعالى نے تو انسان كو يه صلاحيتيں استعمال ميں لانے كے ليے دى هيں، ليكن واقعه يه هے كه حق كى دعوت كے جواب ميں اكثر لوگ ان صلاحيتوں سے بالكل بھى كام نهيں ليتے۔ بلكه اگر بات سمجھ ميں آبھى جائے اور دل اس كى صداقت كى گواهى بھى دے دے تب بھى عملى طور پر قدم آگے نهيں بڑھتا۔ صرف اس ليے كه آباء و اجداد كے اعتقادات و نظريات هيں، برادرى كے رسم و رواج هيں! انهيں كيسے چھوڑديں؟ اور اگر چھوڑيں گے تو لوگ كيا كهيں گے؟ اسى نوعيت كى ايك مجبورى يه بھى هے كه پرانے مسلك سے رو گردانى بھلا كيوں كر ممكن هے؟ اتنے عرصے سے اس جماعت ميں هيں، اب يك دم اس سے كيسے بے وفائى كرديں؟

UP
X
<>