April 20, 2024

قرآن کریم > الـملك >sorah 67 ayat 2

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

جس نے موت اور زندگی اس لئے پید اکی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے، او روہی ہے جو مکمل اِقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے

آيت 2: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً: « جس نے موت اور زندگى كو پيدا كيا تاكه تمهيں آزمائے كه تم ميں سے كون اچھے اعمال كرنے والا هے»۔

وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ: « اور وه بهت زبردست بھى هے اور بخشنے والا بھى هے»۔

يه هے انسانى زندگى اور موت كى تخليق كا اصل مقصد۔ جو كوئى اس فلسفے كو نهيں سمجھے گا اسے زندگي، موت  اور موت كے بعد پھر زندگى كى يه باتيں محض افسانه معلوم هوں گي۔ جيسے ايك معروف جاهلى شاعر نے اپنى بيوى كو مخاطب كركے كها تھا:

حَيَاتٌ ثمَّ مَوتٌ ثمَّ بَعْثٌ          حديثُ خَرافَةٍ يَا اُمَّ عَمْرٍو

«كه يه زندگي، پھر موت، پھر زندگي، اے ام عمرو! يه كيا حديث خرافات هے؟

(معاذ الله!) انسانى زندگى كا سفر دراصل عالم ارواح سے شروع هو كر ابد الآباد كى سرحدوں تك جاتا هے۔

انسان كى دنيوى زندگي، موت اور بعث بعد الموت اس طويل سلسلهٔ حيات كے مختلف مراحل هيں۔ جيسا كه اس آيت ميں آيا هے: (وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ) (البقرة: 28) «اور تم مرده تھے، پھر اس نے تمهيں زنده كيا، پھر وه تمهيں مارے گا، پھر جِلائے گا، پھر تم اسى كى طرف لوٹا ديے جاؤ گے»۔ زندگى كے تسلسل كے اندر موت كے مرحلے كى توجيه مير تقى مير نے ان الفاظ ميں بيان كى هے:

موت اك زندگى كا وقفه هے يعنى آگے چليں گے دم لے كر

بهر حال انسان كى دنيوى زندگى ايك وقفهٔ امتحان هے، اور موت اس وقفے كے امتحان كى گھنٹى هے: ( نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ) ( الواقعة: 60) ۔ اس وقفهٔ امتحان كا انداز بالكل اسكولوں اور كالجوں كے امتحانات جيسا هے، فرق بس يه هے كه ان امتحانات كے ليے چند گھنٹوں كا وقت ديا جاتا هے، جب كه انسانى زندگى كے حقيقى امتحان كا دورانيه اوسطا تيس چاليس برس پر محيط هے۔ ظاهر هے انسانى زندگى كے بيس پچيس برس تو بچپنے اور غير سنجيده رويے كى نذر هو جاتے هيں۔ پھر اگر كسى كو بڑھاپا ديكھنا نصيب هو تو اپنى آخرى عمر ميں وه ( لِكَيْلا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْ) ( الحج: 4) كى عبرت ناك تصوير بن كر ره جاتا هے۔ لے دے كر ايك انسان كو عمل كے ليے شعور كى عمر كے اوسطا تيس چاليس سال هى ملتے هيں۔ علامه اقبال نے اپنى مشهور نظم خضر راه ميں « زندگي» كے عنوان كے تحت زندگى كے اس فلسفے پر كمال مهارت سے روشنى ڈالى هے۔ اس نظم كے چند اشعار ملاحظه هوں:

بر تر از انديشه سود وزياں هے زندگي              هے كبھى جاں اور كبھى تسليم جاں هے زندگي

تو اسے پيمانه امروز و فردا سے ناپ                 جاوداں، پيهم دواں، هر دم جواں هے زندگي

قلزم هستى سے تو ابھرا هے مانند حباب             اس زياں خانے ميں تيرا امتحاں هے زندگي

ان اشعار ميں علامه اقبال نے در اصل قرآنى آيات هى كى ترجمانى كى هے۔ مندرجه بالا آخرى شعر ﴿قلزم هستي۔۔۔﴾ آيت زير مطالعه كے مفھوم كا ترجمان هے، جب كه پهلے شعر ميں سورة البقرة كى آيت 154 ﴿وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ﴾ كا بنيادى فلسفه بيان هوا هے۔ ظاهر هے عام طور پر تو زنده جان كو هى زندگى كا نام ديا جاتا هے، ليكن كبھى ايسا هوتا هے كه حقيقى اور دائمى زندگى جان دے دينے ﴿تسليم جاں﴾ سے حاصل هوتى هے۔

UP
X
<>