April 19, 2024

قرآن کریم > الـملك >sorah 67 ayat 4

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ

پھر بار بار نظر دوڑاؤ، نتیجہ یہی ہوگا کہ نظر تھک ہار کر نامراد لوٹ آئے گی

آيت 4:  ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ: پھر لوٹاؤ نگاه كو بار بار (كوئى رخنه ڈھونڈنے كے ليے) پلٹ آئے گى نگاه تمهارى طرف ناكام تھك هار كر۔»

اندازه كيجيے كه كس قدر پر زور اسلوب هے اور كتنا بڑا چيلنج هے! بار بار ديكھو، هر پهلو اور هر زاويے سے ديكھو! الله تعالى كى تخليق ميں تمهيں كوئى خلل، نقص يا رخنه نظر نهيں آئے گا! ظاهر هے كه يه چيلنج پورى انسانيت كے ليے هے اور قيامت تك كے ليے هے۔ بهر حال آج تك كوئى سائنس دان اور كوئى دانش ور اس چيلنج كا جواب نهيں دے سكا۔ گويا اب تك پورى نوع انسانى اس نكتے پر متفق هے كه يه كائنات اور اس كى ايك ايك تخليق مثالى اور كامل هے۔ در اصل دنيا بھر كے داناؤں اور دانشوروں كى توجه اس مثالى تخليق كى طرف دلا كر انهيں پيغام تو يه دينا مقصود هے كه اے عقل كے اندھو! كائنات كى خوب صورتى اور كامليت كو ديكھ كر اس پر حيرت كا اظهار كرنے كے بجائے اس كے خالق كو پهچانو اور اس كى عظمت كے سامنے اپنا سر نياز خم كرو۔ ليكن مقام حيرت هے كه ستاروں اور كهكشاؤں كى دنيا كے اسرار و عجائب كا كھوج لگانے والے بڑے بڑے سائنس دان اور ماهرين فلكيات اس معاملے ميں اپنے ناك تكے كے پتھر سے ٹھوكريں كھاتے رهے۔ ان لوگوں نے اپنى تحقيقات كے دوران بهت كچھ دريافت بھى كيا اور بهت كچھ ديكھا بھي، ليكن اس سارى چھان بين ميں انهيں اگر نهيں نظر آيا تو اس كائنات كا خالق كهيں نظر نهيں آيا۔ بقول اقبال:

ڈھونڈنے والا ستاروں كى گزر گاهوں كا  اپنے افكار كى دنيا ميں سفر كر نه سكا

UP
X
<>