April 24, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 201

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ

جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، اُنہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو وہ (اﷲ کو) یاد کر لیتے ہیں ، چنانچہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں

آیت 201:  اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا:  ’’جن لوگوں کے اندر تقویٰ ہے ان کو جب کوئی برا خیال چھو جاتا ہے شیطان کے اثر سے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں‘‘

            یعنی جن کے دلوں میں اللہ کا تقویٰ جا گزیں ہوتا ہے وہ ہر گھڑی اپنے فکر وعمل کا احتساب کرتے رہتے ہیں اور اگر کبھی عارضی طور پر غفلت یا شیطانی وسوسوں سے کوئی منفی اثرات دل و دماغ میں ظاہر ہوں تو وہ فوراً سنبھل کر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جیسے خود نبی کریم نے فرمایا: «اِنَّـہ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ وَاِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِی الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ»  ’’میرے دل پر بھی کبھی کبھی حجاب سا آ جاتا ہے اور میں روزانہ سو سو مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں‘‘۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ ہمارے دل پر حجاب اور شے ہے جبکہ رسول اللہ کے قلب مبارک پر حجاب بالکل اور شے ہے۔ یہ حجاب بھی اُس حضوری کے درجے میں ہو گا جو ہماری لاکھوں حضوریوں سے بڑھ کر ہے۔ یہاں صرف بات کی وضاحت کے لیے اس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ جس حجاب کا ذکر حضور نے فرمایا ہے ہم نہ تو اس کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کی نوعیت کیا ہو گی اور نہ ہی اس کی مشابہت ہماری کسی بھی قسم کی قلبی کیفیات کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ ہم نہ تو حضور کے تعلق مع اللہ کی کیفیت کا تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی مذکورہ حجاب کی کیفیت کا۔ بس اس تعلق مع اللہ کی شدت (intensity) میں کبھی ذرا سی بھی کمی آ گئی تو حضور نے اسے حجاب سے تعبیر فرمایا۔

            فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ:  ’’اور دفعۃً ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔‘‘

            جب وہ چوکنے ہو جاتے ہیں تو ان کی وقتی غفلت دور ہو جاتی ہے‘ عارضی منفی اثرات کا بوجھ ختم ہو جاتا ہے اور حقائق پھر سے واضح نظر آنے لگتے ہیں۔ 

UP
X
<>