April 23, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 203

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ 

اور (اے پیغمبر !) جب تم ان کے سامنے (ان کا منہ مانگا) معجزہ پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ : ’’ تم نے یہ معجزہ خود اپنی پسند سے کیوں نہ پیش کر دیا ؟ ‘‘ کہہ دو کہ : ’’ میں تو اُسی بات کا اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے وحی کے ذریعے مجھ تک پہنچائی جاتی ہے۔ یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے بصیرتوں کا مجموعہ ہے، اور جو لوگ ایمان لائیں اُن کیلئے ہدایت اور رحمت ! ‘‘

            آخر میں ان دونوں سورتو ں کے مضامین کے عمود کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ دو سورتیں نازل ہوئیں اس وقت کفارِ مکہ کی طرف سے یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ کیا جارہا تھا کہ کوئی نشانی لاؤ‘ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ جس طرح کے حسی معجزات حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کو ملے تھے، اسی نوعیت کے معجزات اہل مکہ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے اُن کی طرف سے مطالبات آتے رہے، ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ اب اس سلسلے میں آخری بات ہو رہی ہے۔

آیت 203:  وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلاَ اجْتَبَیْتَہَا:  ’’(اے نبی) جب آپ ان کے پاس کوئی معجزہ نہیں لاتے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کیوں نہ اسے چن کر لے آئے؟‘‘

            کفارِ مکہ کا کہنا تھا کہ جب آپ  کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اُس کے محبوب ہیں تو آپ کے لیے معجز ہ دکھانا کون سا مشکل کام ہے؟ آپ ہمارے اطمینان کے لیے کوئی معجزہ چھانٹ کر لے آئیں! اس سلسلے میں تفسیر کبیر میں امام رازی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرم کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا‘ جو اگرچہ ایمان تو نہیں لایا تھا مگر اکثر آپ کے ساتھ رہتا اور آپ سے تعاون بھی کرتا تھا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے امید تھی کہ ایک دن وہ ایمان بھی لے آئے گا۔ ایک دفعہ کسی محفل میں سرداران قریش نے معجزات کے بارے میں آپ سے بہت بحث و تکرار کی کہ آپ نبی ہیں تو ابھی معجزہ دکھائیں، یہ نہیں تو وہ دکھا دیں، ایسے نہیں تو ویسے کر کے دکھا دیں! (اس کی تفصیل سورہ بنی اسرائیل میں بھی آئے گی) مگر آپ نے ان کی ہر بات پر یہی فرمایا کہ معجزہ دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے‘ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے‘ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دکھا دے گا۔ اس پر انہوں نے گویا اپنے زعم میں میدان مار لیا اور آپ پر آخری حجت قائم کر دی۔ اس کے بعد جب حضور وہاں سے اٹھے تو وہاں شور مچ گیا۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کس کس انداز میں باتیں نہیں کی ہوں گی اور اس کے عوام پر کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے اُس پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ آج تو گویا آپ کی قوم نے آپ پر حجت قائم کر دی ہے‘ اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔

            اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ موضوع اس ماحول میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا اور اس طرح کی صورتِ حال میں آپ کس قدر دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا کچھ نقشہ سورۃ الانعام آیت: 35 میں اس طرح کھینچا گیا ہے: وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَـبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَـتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ.  ’’اور (اے نبی) اگر آپ پر بہت شاق گزر رہا ہے ان کا اعراض تو اگر آپ میں طاقت ہے تو زمین میں کوئی سرنگ بنا لیجیے یا آسمان پر سیڑھی لگا لیجیے اور ان کے لیے کہیں سے کوئی نشانی لے آیئے!‘‘ (ہم تو نہیں دکھائیں گے!)۔ یہ پس منظر ہے ان حالات کا جس میں فرمایا جا رہا ہے کہ معجزات کے مطالبات میں آپ ان کو بتائیں کہ معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے، مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔

            قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ:  ’’کہہ دیجیے کہ میں توصرف پیروی کررہا ہوں اُس کی جو میری طرف وحی کی جا رہی ہے میرے ربّ کی طرف سے۔‘‘

            ہٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّــؤْمِنُوْنَ:  ’’یہ تمہارے ربّ کی طرف سے بصیرت افروز باتیں ہیں، اور یہ ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے حق میں جو ایمان لے آئیں۔‘‘

            میں آپ لوگوں کے سامنے جو پیش کر رہا ہوں ، یہ وہی کچھ ہے جو اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے اور میں خود بھی اسی کی پیروی کر رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں۔ 

UP
X
<>