April 23, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 205

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ 

اور اپنے رب کا صبح و شام ذکر کیا کرو اپنے دل میں بھی، عاجزی اور خوف کے (جذبات کے) ساتھ، اور زبان سے بھی، آواز بہت بلند کئے بغیر ! اور اُن لوگوں میں شامل نہ ہوجانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں

آیت 205:  وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً:  ’’اور اپنے رب کو یاد کرتے رہا کرو اپنے جی ہی جی میں، عاجزی اور خوف کے ساتھ‘‘

            اس عاجزی کی انتہا اور عبدیت کاملہ کا مظہر تو وہ دعائے ماثور ہے جو میں نے نقل کی ہے ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ نامی اپنے کتابچے کے آخر میں۔ ان دونوں آیات (قرآن کی عظمت اور دعا میں عاجزی) کے حوالے سے اس دعا کے مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں اتارنے کی کوشش کریں :

            اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ ’’ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں!‘‘

            وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ ’’ تیرے ایک نا چیز غلام اور ادنیٰ کنیز کا بیٹا ہوں !‘‘

            وَفِیْ قَبْضَتِکَ، نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ’’ اورمجھ پر تیرا ہی کامل اختیار ہے، میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ ہے۔‘‘

            مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُکَ ’’نافذ ہے میرے بارے میں تیرا ہر حکم، اور عدل ہے میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ۔‘‘

            اَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ‘ سَمَّیْتَ بہ نَفْسَکَ ’’میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تیرے ہر اُس اسم کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی ذاتِ مقدس کو موسوم فرمایا‘‘

             اَوْ اَنْزَلْتَہ فِیْ کِتَابِکَ ’’یا اپنی کسی کتاب میں نازل فرمایا‘‘

            اَوْ عَلَّمْتَہ اَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ ’’ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تلقین فرمایا‘‘

            اَوِ اسْتَأثَرْتَ ِبہ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ ’’یا اسے اپنے مخصوص خزانہ غیب ہی میں محفوظ رکھا‘‘

            اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَنُـوْرَ صَدْرِیْ وَجِلَاءَ حُزْنِیْ وَذَھَابَ ھَمِّیْ وَغَمِّیْ ’’کہ تو بنا دے قرآن مجید کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے رنج و حزن کی جلا اور میرے تفکرات اور غموں کے ازالے کا سبب !‘‘

            آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ! ’’ ایسا ہی ہو اے تمام جہانوں کے پروردگار!‘‘

            وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ:  ’’اور بلند آواز سے نہیں (پست آواز سے)‘‘

            البتہ جب آدمی دُعا مانگے تو اس طرح مانگے کہ خود سن سکے تا کہ اس کی سماعت بھی اس سے استفادہ کرے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو قراءت ایسے کرے کہ خود سن سکے‘ اگرچہ سری نماز ہی کیوں نہ ہو۔

            بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ:  ’’(اور اس طرح آپ اپنے رب کا ذکر کرتے رہیں) صبح کے وقت بھی اور شام کے اوقات میں بھی‘‘

            جیسے سورۃ الانعام کی پہلی آیت کی تشریح کے ضمن میں ذکر آیا تھا کہ لفظ نُور قرآن میں ہمیشہ واحد آتا ہے جبکہ ظُلُمات ہمیشہ جمع ہی آتا ہے‘ اسی طرح لفظ غُدُوّ (صبح) بھی ہمیشہ واحد اور آصال (شام) ہمیشہ جمع ہی آتا ہے۔ یہ اَصِیل کی جمع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ صبح کی نماز تو ایک ہی ہے یعنی فجر‘ جبکہ سورج ذرا مغرب کی طرف ڈھلنا شروع ہوتا ہے تو پے در پے نمازیں ہیں، جو رات تک پڑھی جاتی رہتی ہیں یعنی ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشاء۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت: 78: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّـیْلِ.  میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔

            وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ:  ’’اور غافلوں میں سے نہ ہو جائیے۔‘‘ 

UP
X
<>