April 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 31

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ 

اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو ! جب کبھی مسجد میں آؤ تو اپنی خوشنمائی کا سامان (یعنی لباس جسم پر) لے کر آؤ، اور کھاؤ اور پیو، اور فضول خرچی مت کرو۔ یاد رکھو کہ اﷲ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا

آیت 31:  یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ:  ’’اے آدم کی اولاد‘ اپنی زینت استوار کیا کرو ہر نماز کے وقت‘‘

            یہاں اچھے لباس کو زینت کہا گیا ہے‘ جیسا کہ آیت: 26 میں لباس کو رِیْشًا فرمایا گیا تھا، یعنی لباس انسان کے لیے زیب و زینت کا ذریعہ ہے۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ ابھی جن تین آیات (26‘ 27 اور 31) میں لباس کا ذکر ہوا ہے‘ ان تینوں میں بنی آدم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس کا معاملہ پوری نوع انسانی سے متعلق ہے۔ بہر حال اس آیت میں جو اہم حکم دیا جا رہا ہے وہ نماز کے وقت بہتر لباس زیب تن کرنے کے بارے میں ہے۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں عام طور پر اُلٹی روش چلتی ہے۔ دفتر اور عام میل ملاقات کے لیے تو عموماً بہت اچھے لباس کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن مسجد جانا ہو تو میلے کچیلے کپڑوں سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ جب تمہیں میرے دربار میں آنا ہو تو پورے اہتمام کے ساتھ آیا کرو‘ اچھا اور صاف ستھرا لباس پہن کر آیا کرو۔

            وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا اِنَّہ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ:  ’’اور کھاؤ اور پیو البتہ اسراف نہ کرو‘ یقینا وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

            بنی آدم سے کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی چیزیں تمہارے لیے ہی بنائی گئیں ہیں اور ان چیزوں سے جائز اور معروف طریقوں سے استفادہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے‘ لیکن اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کے بے جا استعمال اور اسراف سے اجتناب بھی ضروری ہے، کیونکہ اسراف اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ یہاں ایک طرف تو اسی رہبانی نظریہ کی نفی ہو رہی ہے جس میں اچھے کھانے‘ اچھے لباس اور زیب و زیبائش کو سرے سے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور مفلسانہ وضع قطع اور ترکِ لذات کو روحانی ارتقاء کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے‘ جبکہ دوسری طرف دُنیوی نعمتوں کے بے جا اسراف اور ضیاع سے سختی سے منع کر دیا گیا ہے۔

            اس سلسلے میں افراط و تفریط سے بچنے کے لیے ضروریاتِ زندگی کے اکتساب و تصرف کے معیار اور فلسفے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلمان جہاں کہیں بھی رہتا بستا ہے اس کو دو صورتوں میں سے ایک صورت حال درپیش ہو سکتی ہے۔ اس کے ملک میں یا تو دین غالب ہے یا مغلوب۔ اب اگر آپ کے ملک میں اللہ کا دین مغلوب ہے تو آپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ آپ اللہ کے دین کے غلبے کی جدو جہد کریں اور اس کے لیے کسی باقاعدہ تنظیم میں شامل ہو کر اپنا بیشتر وقت اور صلاحیتیں اس جدوجہد میں لگائیں۔ ایسی صورت حال میں دُنیوی طور پر ترقی کرنا اور پھلنا پھولنا آپ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ آپ کی پہلی ترجیح دین کے غلبے کے لیے جدو جہد ہونی چاہیے اور آپ کا ماٹو «اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ» (الأنعام) ہونا چاہیے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ مادی لحاظ سے بہت بہتر معیارِ زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ اس لیے نہیں ہو گا کہ آپ رہبانیت یا ترکِ لذات کے قائل ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ دُنیا اور دُنیوی آسائشیں کمانے کے لیے نہ آپ کوشاں ہیں اور نہ ہی اس کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔ آپ تو شعوری طور پر ضروریاتِ زندگی کو کم سے کم معیار پر رکھ کر اپنی تمام تر صلاحیتیں، اپنا وقت اور اپنے وسائل دین کی سر بلندی کے لیے کھپا رہے ہیں۔ یہ رہبانیت نہیں ہے بلکہ ایک مثبت جہادی نظریہ ہے۔ جیسے نبی اکرم اور صحابہ کرام نے سختیاں جھیلیں اور اپنے گھر باراسی دین کی سر بلندی کے لیے چھوڑے۔ کیونکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کو نازل نہیں کرے گا‘ بلکہ یہ کام انسانوں نے کرنا ہے‘ مسلمانوں نے کرنا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ انقلاب کے داعی بنے ہیں انہیں قربانیاں دینا پڑی ہیں، انہیں سختیاں اٹھانا پڑی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی انقلاب قربانیوں کے بغیر نہیں آتا۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اپنے دین کو غالب کرنے کے لیے انقلاب کے داعی بن کر نکلے ہیں تو آپ کا معیارِ زندگی خود بخود کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔

            البتہ اگر آپ کے ملک میں دین غالب ہو چکا ہے، نظا مِ خلافت قائم ہو چکا ہے، اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آ چکی ہے تو دین کی مزید نشر و اشاعت، دعوت و تبلیغ اور نظامِ خلافت کی توسیع، عوامی فلاح و بہبود کی نگرانی، امن و امان کا قیام‘ ملکی سرحدوں کی حفاظت، یہ سب حکومت اور ریاست کی ذمہ داریاں ہیں۔ ایسی اسلامی ریاست میں ایک فرد کی ذمہ داری صرف اسی حد تک ہے جس حد تک حکومت کی طرف سے اسے مکلف کیا جائے۔ وہ کسی ٹیکس کی صورت میں ہو یا پھر کسی اور نوعیت کی ذمہ داری ہو۔ لیکن ایسی صورتِ حال میں ایک فرد، ایک عام شہری آزاد ہے کہ وہ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی اپنی مرضی سے گزارے۔ اچھا کمائے، اپنے بچوں کے لیے بہتر معیارِ زندگی اپنائے‘ دُنیوی ترقی کے لیے محنت کرے‘ علمی و تحقیقی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو آزمائے یا روحانی ترقی کے لیے مجاہد ہ کرے‘ تمام راستے اس کے لیے کھلے ہیں۔ 

UP
X
<>