April 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 6

فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ 

اب ہم اُن لوگوں سے ضرور باز پُرس کریں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے، اور ہم خود پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے (کہ انہوں نے کیا پیغام پہنچایا، اور انہیں کیا جواب ملا ؟)

آیت 6: فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ:  ’’پس ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے بھی جن کی طرف ہم نے رسولوں کو بھیجا اور لازماً پوچھ کر رہیں گے رسولوں سے بھی۔‘‘

            یہ فلسفہ رسالت کا بہت اہم موضوع ہے جو اس آیت میں بڑی جلالی شان کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول کو اس لیے بھیجتا ہے تا کہ وہ اسے خبردار کر دے۔ یہ ایک بہت بھاری اور حساس ذمہ داری ہے جو رسول پر ڈالی جاتی ہے۔ اب اگر بالفرض رسول کی طرف سے اس میں ذرا بھی کوتاہی ہو گی تو قوم سے پہلے اس کی پکڑ ہو جائے گی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آپ نے ایک اہم پیغام دے کر کسی آدمی کو اپنے کسی دوست کے پاس بھیجا کہ وہ یہ کام کل تک ضرور کر دے ورنہ بہت نقصان ہو گا‘ لیکن آپ کے اس دوست نے وہ کام نہیں کیا اور آپ کا نقصان ہو گیا۔ اب آپ غصے سے آگ بگولہ اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ تم نے میرے پیغام کے مطابق بروقت میرا کام کیوں نہیں کیا؟ اب آپ کا دوست اگر جواباً یہ کہہ دے کہ اس کے پاس تو آپ کا پیغام لے کر کوئی آیا ہی نہیں، تو اپنے دوست سے آپ کی ناراضی فوراً ختم ہو جائے گی، کیونکہ اس نے کوتاہی نہیں کی، اور آپ کو شدید غصہ اس شخص پر آئے گا جس کو آپ نے پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اب آپ اس سے باز پرس کریں گے کہ تم نے میرا اتنا اہم پیغام کیوں نہیں پہنچایا؟ تم نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دے کر میرا اتنا بڑا نقصان کر دیا۔ اسی طرح کا معاملہ ہے اللہ، رسول اور قوم کا۔ اللہ نے رسول کو پیغام بر بنا کر بھیجا۔ بالفرض اس پیغام کے پہنچانے میں رسول سے کوتاہی ہو جائے تو وہ جوابدہ ہو گا۔ ہاں اگر وہ پیغام پہنچا دے تو پھر وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا۔ پھر اگر قوم اس پیغام پر عمل درآمد نہیں کرے گی تو وہ ذمہ دار ٹھہرے گی۔ چنانچہ آخرت میں اُمتوں کا بھی محاسبہ ہونا ہے اور رسولوں کا بھی۔ اُمت سے جواب طلبی ہو گی کہ میں نے تمہاری طرف اپنا رسول بھیجا تھا تا کہ وہ تمہیں میرا پیغام پہنچا دے، تم نے اس پیغام کو قبول کیا یا نہیں کیا؟ اور مرسلین سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام پہنچایا یا نہیں؟ اس کی ایک جھلک ہم سورۃ المائدۃ (آیت: 109) میں  «مَاذَآ اُجِبْتُمْ» کے سوال میں اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسیٰ کے ساتھ قیامت کے دن ہونے والے مکالمے کے ان الفاظ میں بھی دیکھ آئے ہیں: وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ أاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ.  (آیت: 116) ’’اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے عیسی ابن مریم کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لینا اللہ کے علاوہ؟‘‘

            اب ذرا حجۃ الوداع (100 ہجری) کے منظر کو ذہن میں لائیے۔ محمد رسول اللہ ایک جم ِغفیر سے مخا طب ہیں۔ اس تاریخی موقع کے پس منظر میں آپ کی 23 برس کی محنت شاقہ تھی‘ جس کے نتیجے میں آپ نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں پر اتمامِ حجت کر کے دین کو غالب کر دیا تھا۔ لہٰذا آپ نے اس مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا: «اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ؟» لوگو سنو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ اس پر پورے مجمع نے یک زبان ہو کر جواب دیا: نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ۔ ایک روایت میں الفاظ آتے ہیں: اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَّ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ.  کہ ہاں ہم گواہ ہیں آپ نے رسالت کا حق ادا کر دیا‘ آپ نے امانت کا حق ادا کر دیا (یہ قرآن آپ کے پاس اللہ کی امانت تھی جو آپ نے ہم تک پہنچا دی)، آپ نے اُمت کی خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اور آپ نے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں کا پردہ چاک کردیا۔ حضور نے تین دفعہ یہ سوال کیا اور تین دفعہ جواب لیا اور تینوں دفعہ انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر پکارا: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ‘ یہ مان رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا۔ اور پھر فرمایا: « فَلْیُـبَـلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ»   کہ اب پہنچائیں وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ گویا میرے کندھے سے یہ بوجھ اتر کر اب تمہارے کندھوں پر آ گیا ہے۔ اگر میں صرف تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوتا تو بات آج پوری ہو گئی ہوتی‘ مگر میں تو رسول ہوں تمام انسانوں کے لیے جو قیامت تک آئیں گے۔ چنانچہ اب اس دعوت اور تبلیغ کو ان لوگوں تک پہنچانا امت کے ذمہ ہے۔ یہی وہ گواہی ہے جس کا منظر سورۃ النساء میں دکھایا گیا ہے: فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔  پھر اس روز حجۃ الوداع کے موقع والی گواہی کا حوالہ بھی آئے گا کہ اے اللہ میں نے تو ان لوگوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا، اب یہ ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چونکہ معاملہ ان پر کھول دیا گیاتھا‘ لہٰذا اب یہ لوگ لاعلمی کے بہانے کا سہارا نہیں لے سکتے۔ 

UP
X
<>