April 20, 2024

قرآن کریم > الـمـزّمّـل >sorah 73 ayat 4

أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا

یا اُس سے کچھ زیادہ کر لو، اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو

آيت 4: أَوْ زِدْ عَلَيْهِ: «يا اس پر تھوڑا بڑھاليں»

          يا پھر رات كا دو تهائى حصه قيام ميں گزاريں۔ گويا آپ صلى الله عليه وسلم كے قيام الليل كا دورانيه يا نصاب ايك تهائى رات سے لے كر دو تهائى رات تك هونا چاهيے۔ اس نصاب ميں همارے ليے رمضان كا قيام الليل كے حوالے سے بھى راه نمائى موجود هے۔ رمضان كى راتوں كے قيام كے بارے ميں حضرت ابو ھريره رضى الله عنه سے مروى حضور صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے:

(مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)

«جس نے رمضان كے روزے ركھے ايمان اور خود احتسابى كى كيفيت كے ساتھ اس كے پچھلے تمام گناه معاف كرديے گئے، اور جس نے رمضان (كى راتوں) ميں قيام كيا (قرآن سننے اور سنانے كے ليے) ايمان اور خود احتسابى كى كيفيت كے ساتھ اس كے بھى تمام سابقه گناه معاف كر ديے گئے، اور جو ليلة القدر ميں كھڑا رها (قرآن سننے اور سنانے كے ليے) ايمان اور خود احتسابى كى كيفيت كے ساتھ اس كى بھى سابقه تمام خطائيں بخش دى گئيں»۔

          اب ظاهر هے «قيام الليل» كى اصطلاح كا اطلاق رات كے ايك بڑے حصے كے قيام پر هى هوسكتا هے۔ گھنٹے بھر ميں جيسے تيسے بيس ركعتيں پڑھ كر سو جانے كو تو قيام الليل نهيں كها جاسكتا۔ اور يه بيس ركعتوں كا نصاب تو اصل ميں ان لوگوں كے ليے هے جنهوں نے سارا دن محنت و مشقت ميں گزارنا هے۔ ايسے لوگوں كى مجبورى كو پيش نظر ركھتے هوئے حضرت عمر فاروق رضى الله عنه نے ان كے ليے قيام الليل كا ايك كم سے كم معيار مقرر فرما ديا تھا۔ البته جن لوگوں كے حالات موافق هوں انهيں رمضان المبارك ميں بهر صورت زير مطالعه آيات كے مفهوم و مدعا كے مطابق قيام الليل كا اهتمام كرنا چاهيے۔ اسى طرح وه حضرات جو اپنى ملازمت وغيره سے ايك ماه كى رخصت لے سكتے هيں انهيں بھى چاهيے كه وه اپنى سالانه چھٹياں سير سپاٹوں پر ضائع كرنے كے بجائے رمضان كے ليے بچا كر ركھا كريں، تاكه قيام الليل كى بركتوں سے كما حقه مستفيد هوسكيں۔

          وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً: «اور ٹھهر ٹھهر كر قرآن پڑھتے جائيے۔»

          ترتيل كے معنى قرآن مجيد كو خوب ٹھهر ٹھهر كر اور سمجھ كر پڑھنے كے هيں۔ گويا قيام الليل كا اصل لازمه قرآن مجيد كى تلاوت هے اور وه بھى ترتيل كے ساتھ۔ واضح رهے كه حضور صلى الله عليه وسلم كو يه حكم نبوت كے بالكل ابتدائى دور ميں دے ديا گيا تھا۔ بعد ميں جب باقاعده پانچ نمازيں فرض هوگئيں تو قيام الليل كو مختصر كركے تهجد كى شكل دے دى گئى، ليكن اس ميں بھى قرآن كى تلاوت پر زور ديا گيا: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ) (بنى اسرائيل: 79) يعنى تهجد بھى قرآن كے ساتھ (بِهِ) ادا كريں۔ تهجد كا حق يوں ادا نهيں هوتا كه چند مختصر سورتوں كے ساتھ آٹھ ركعتيں ادا كيں اور پھر بيٹھ كر دوسرے اذكار ميں مشغول هوگئے۔ بهر حال جسے الله تعالى نے تهجد كى توفيق دى هو اس كے ليے لازم هے كه وه اتنا قرآن ضرور ياد كرے جس سے تهجد كا كچھ نه كچھ حق ادا هوسكے۔

UP
X
<>