April 25, 2024

قرآن کریم > الـمّـدّثّـر >sorah 74 ayat 17

سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا

عنقریب میں اُسے ایک کٹھن چڑھا ئی پر چڑھاؤں گا

آيت 17: سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا: «ميں اسے عنقريب ايك سخت چڑھائى چڑھواؤں گا۔»

        اس سے مراد ايسا عذاب هے جس كى شدت هر آن بڑھتى چلى جائے گى۔ اسى نوعيت كے عذاب كا ذكر سورة الجن ميں بھى آچكا هے: (يَسْلُكُهُ عَذَاباً صَعَداً) «تو وه ڈال دے گا اس كو چڑھتے عذاب ميں۔»

        وليد بن مغيره بنيادى طور پر بهت ذهين اور سمجھ دار شخص تھا۔ وه سمجھ چكا تھا كه قرآن الله هى كا كلام هے اور محمد صلى الله عليه وسلم الله كے رسول هيں، ليكن اپنے ضمير كى اس آواز پر لبيك كه كر وه اپنى چودھراهٹ اور دنيوى ٹھاٹھ باٹھ كى قربانى نهيں دے سكتا تھا۔ چناں چه قريش ميں سب سے بڑھ كر اس شخص نے حضور صلى الله عليه وسلم پر سمجھوتے (Compromise) كے ليے دباؤ ڈالنے كى كوشش كى تھى۔ اس كے ليے اس نے حضور صلى الله عليه وسلم كو همدردانه انداز ميں بھى سمجھايا، پر كشش پيشكش كا حربه بھى آزمايا اور برادرى كے معاملات كا واسطه بھى ديا كه قريش اگر آپس ميں تقسيم هوجائيں گے تو ان كى بنى بنائى ساكھ ختم هوكر ره جائے گى۔ غرض اس نے هر طرح سے كوشش كه حضور صلى الله عليه وسلم كچھ اپنى بات منواليں، كچھ قريش كى مان ليں اور اس طرح فريقين كے اختلافات كو مذاكرات كے ذريعے ختم كرديا جائے۔

        آئنده آيات ميں ايك خاص واقعه كے حوالے سے اس شخص كى ايك خاص كيفيت كى تصوير دكھائى گئى هے۔ تفاسير ميں اس واقعه كى تفصيل يوں بيان كى گئى هے كه ايك محفل ميں قريش كے بڑے بڑے سردار جمع تھے۔ زير بحث موضوع يه تھا كه محمد صلى الله عليه وسلم كے بارے ميں هميں ايك متفقه مؤقف كمزور هوجاتا هے كه هم خود كسى بات پر متفق نهيں۔ بحث مباحثے كے بعد انهوں نے وليد بن مغيره كو حضور صلى الله عليه وسلم كے پاس بھيجا كه وه جائے اور آپ سے تفصيلى بات چيت كركے انهيں اپنى حتمى رائے سے آگاه كرے۔ جب وه حضور صلى الله عليه وسلم سے ملاقات كركے واپس آيا تو انهوں نے اس كے چهرے كا رنگ بدلا هوا پايا۔ در اصل حضور صلى الله عليه وسلم سے گفتگو كرنے كے بعد وه پورى طرح قائل هوچكا تھا كه آپ صلى الله عليه وسلم واقعى الله كے رسول هيں اور جو كلام آپ پيش كررهے هيں وه بلا شبه الله هى كا كلام هے۔ ليكن يه بات سرداران قريش كے سامنے تسليم كرنا اسے كسى قيمت پر گواره نهيں تھا۔ چناں چه جب انهوں نے اس سے پوچھا كه وه كس نتيجے پر پهنچا هے؟ كيا هم محمد صلى الله عليه وسلم كو محض ايك شاعر سمجھيں؟ تو اس نے كها: نهيں ان كا كلام شعر نهيں هے۔ انهوں نے پوچھا: تو كيا پھر هم اسے كاهن كه سكتے هيں؟ اس نے جواب ديا: نهيں، كاهنوں كے قول و كردار كو ميں خوب جانتا هوں۔ وه ذو معنى باتيں كرتے هيں جب كه يه تو دو ٹوك اور سيدھى بات كرتے هيں۔ اس پر سرداران قريش نے كها كه لو جى! يه تو گيا! اس پر بھى محمد (صلى الله عليه وسلم) كا جادو چل گيا! اب اس نے اهل محفل كے جو تيور ديكھے تو فوراً پينترا بدل كر بولا كه هاں اس كے كلام كے بارے ميں آپ لوگ يه كه سكتے هيں كه جادو هے، جو پچھلے زمانے سے چلا آرها هے۔

        اب ظاهر هے وليد بن مغيره جيسے معتبر اور مدبر شخص كا ايك بات پر پورى طرح سے قائل هونے كے بعد زبان سے اس كى على الاعلان نفى كرنا كوئى آسان كام نهيں تھا۔ چناں چه اس موقع پر وه اپنے ضمير كى آواز كو دباتے هوئے، زبان سے جھوٹ كهتے هوئے اور اس دوران اپنى پريشانى اور خفت كو چھپاتے هوئے جس كرب سے گزرا هے ان آيات ميں اس كى پورى كيفيت كى تصوير كھينچ دى گئى هے۔ اس اعتبار سے قرآن مجيد كا يه مقام فصاحت و بلاغت كى معراج اور لفظى منظر كشى كى بهترين مثال هے۔

UP
X
<>