April 20, 2024

قرآن کریم > الـقـيامـة >sorah 75 ayat 2

وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ

اور قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی، (کہ ہم انسان کو ضرور دوبارہ زندہ کریں گے)

آيت 2: وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ: «اور نهيں! ميں قسم كھاتا هوں نفس لوامه كى۔»

        نفس لوامه كے لغوى معنى هيں ملامت كرنے والا نفس۔ اس سے مراد انسان كا وه نفس هے جسے هم عرف عام ميں ضمير (conscience) كهتے هيں۔ اس آيت ميں نفس لوامه يا انسانى ضمير كو قيام قيامت كى دليل كے طور پر پيش كيا گيا هے۔ انسانى نفس لوامه يا ضمير ايك ايسى حقيقت هے جس سے كوئى مسلمان، كافر يا دهريه انكار نهيں كرسكتا۔ «ميرا ضمير مجھے ملامت كررها هے» يا «My conscience is biting me» جيسے جملے دنيا بھر كے انسانوں كے هاں بولے اور سمجھے جاتے هيں۔ آخر سوچنے كى بات هے كه اگر آپ كوئى غلط يا برا كام كريں تو اندر كے كوئى چيز كيوں بار بار آپ كے دل و دماغ ميں چبھن پيدا كرتى هے؟ اور بعض اوقات اس چبھن كے تسلسل و تكرار كى وجه سے آپ كى نيند تك كيوں اڑ جاتى هے؟ اگر كوئى نيكى نيكى نهيں اور كوئى برائى برائى نهيں تو برے كام پر آپ كے اندر كى يه چبھن اور خلش آخر آپ كو كيوں تنگ كرتى هے؟ چناں چه نيكى اور بدى كے الگ الگ وجود كا سب سے بڑا آفاقى سطح پر مسمله ثبوت انسانى نفس كى ملامت يا ضمير كى خلش هے۔ اور اگر يه حقيقت تسليم كرلى جائے كه نيكى نيكى هے اور بدى بدى هے تو پھر يه ماننا پڑے گا كه انسانوں كے نيك اور برے اعمال كا حتمى اور قطعى نتيجه نكلنا بھى ناگزير هے۔ دوسرى طرف اس حوالے سے زمينى حقائق سب كے سامنے هيں۔ يعنى دنيا ميں ايسا كوئى حتمى اور قطعى نتيجه نه تو نكلتا اور نه هى ايسا ممكن هے۔ اس دليل كى روشنى ميں اس حقيقت كو تسليم كيے بغير چاره نهيں كه هر انسان كو اس كے اچھے برے اعمال كى پورى پورى جزا يا سزا دينے كے ليے ايك دوسرى دنيا يعنى آخرت كا وجود ميں لايا جانا ناگزير هے۔ چناں چه قيامت، آخرت يا بعث بعد الموت كى سب سے بڑى دليل خود انسان كے اندر موجود هے، اور وه هے انسان كا نفس لوامه يا اس كا ضمير۔

UP
X
<>