April 25, 2024

قرآن کریم > الأعـلى >sorah 87 ayat 3

وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى

اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا، پھر راستہ بتایا

آيت 3: وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى: «اور جس نے (هر شے كا) اندازه مقرر كيا، پھر اسے (فطرى) هدايت عطا فرمائى۔»۔

        ان چار الفاظ (خَلَقَ، فَسَوَّى، قَدَّرَ۔ فَهَدَى) ميں الله تعالى كى صفات كا بيان بھى هے اور تخليقى عمل كے مختلف مراحل كا ذكر بھى۔ الله تعالى كى صفت تخليق كے حوالے سے تين اسمائےحسنى (اَلْخَالِقُ، اَلْبَارِىْ، اَلْمُصَوِّرُ) كا ايك ساتھ ذكر قبل ازيں سورة الحشر كى آخرى آيت ميں بھى آچكا هے۔ سورة الحشر كى اس آيت ميں الله تعالى كى يه تين صفات ايك خاص منطقى ترتيب سے بيان هوئى هيں۔ يه ترتيب دراصل تخليقى عمل كے مرحله وار ارتقاء كى نشان دهى كرتى هے۔ الله تعالى سب سے پهلے كسى چيز كا نقشه يا نمونه بناتا هے، اس لحاظ سے وه خالق هے۔ پھر وه مطلوبه چيز كو طے شده نمونے كے مطابق عدم سے وجود ميں ظاهر فرماتا هے، اس اعتبار سے وه البارى هے۔ تيسرے مرحلے ميں وه اس تخليق كو ظاهرى صورت يا شكل عطا فرماتا هے، اس مفهوم ميں وه المصور هے۔

        سورة الحشر كى مذكوره آيت ميں تخليقى عمل كے جن تين مراحل كا ذكر هوا هے ان كا تعلق چيزوں كے ظاهرى يا مادى وجود سے هے، جب كه زير مطالعه آيات ميں مادى وجود كى تخليق كے ساتھ ساتھ چيزوں كے باطنى خصائص كى تخليق كا ذكر بھى هے۔ (خلق فسوى كے الفاظ كسى تخليق كے باطنى پهلوؤں كى نشان دهى كرتے هيں۔)

        اب هم ان الفاظ كے معانى و مفهوم كو انسانى ماحول كى مثالوں سے سمجھنے كى كوشش كرتے هيں۔ چناں چه پهلے دو مراحل (تخليق اور تسوية) كو ايك عمارت كى مثال كے حوالے سے يوں سمجھيے كه كسى عمارت كا ڈھانچه كھڑا كردينا اس كى «تخليق» هے، جب كه اس كو سجانا، سنوارنا (FINISHING) وغيره اس كا تسويه هے۔ تخليق كا تيسرا مرحله جس كا يهاں ذكر هوا هے وه «قدر» هے۔ قدر كے لغوى معنى اندازه مقرر كرنے كے هيں، جسے عرف عام ميں همارے هاں تقدير كها جاتا هے۔ اس مفهوم ميں كسى تخليق كے معيار، اس كى صلاحيت، استعداد اور حدود (limitations) سميت جمله خصوصيات كو اس كى قدر يا تقدير كها جائے گا۔ مثلاً انسان اشرف المخلوقات تو هے ليكن وه هوا ميں اڑنے سے معذور هے۔ اس كے مقابلے مين ايك چھوٹى سى چڑيا آسانى سے هوا ميں اڑتى پھرتى هے۔ تو گويا هوا ميں اڑنے كى يه صلاحيت ركھنا چڑيا كى تقدير كا خاصه هے اور اس اعتبار سے معذور هونا انسان كى تقدير كا حصه هے۔ اس كے بعد تخليق كے اگلے مرحلے كے طور پر يهاں «هدايت» كا ذكر آيا هے۔ اس سے مراد وه فطرى اور جبلى هدايت هے جو الله تعالى نے اپنى هر مخلوق كو پيدائشى طور پر عطا كر ركھى هے۔ اسى «هدايت» كى روشنى ميں بكرى كو معلوم هوا هے كه اسے گھاس كھانا هے اور شير جانتا هے كه اس كى غذا گوشت هے۔ غرض هر جان دار اپنى زندگى اسى طريقے اور اسى لائحه عمل كے مطابق گزار رها هے جو الله تعالى نے اس كے ليے طے كرديا هے۔

        تخليق كے ان چار مراحل كے حوالے سے اگر هم انسانى زندگى كا جائزه ليں تو پهلے دو مراحل يعنى تخليق اور تسويه كے اعتبار سے تو انسان ميں اور الله تعالى كى دوسرى مخلوقات ميں كوئى فرق نهيں۔ ليكن اگلے دو مراحل (تقدير اور هدايت) كے حوالے سے انسان كا معامله دوسرى مخلوقات سے الگ هے۔ اس لحاظ سے هر انسان كى قدر، صلاحيت اور استعداد الله تعالى كے هاں دو طرح سے طے پاتى هے۔ اس كا ايك پهلو يا ايك حصه تو وه هے جو اسے پيدائشى طور پر جينز (genes) كى صورت ميں عطا هوا (given) هے اور دوسرا پهلو يا دوسرا حصه اس كے ماحول كا هے جس ميں وه آنكھ كھولتا اور پرورش پاتا هے۔ ان دونوں پهلوؤں كے اچھے برے اور مثبت و منفى عوامل كے ملنے سے هر انسان كى شخصيت كا ايك سانچه تيار هوتا هے جسے سوره بنى اسرائيل كى آيت 84 ميں «شاكله» كا نام ديا گيا هے۔ (سوره بنى اسرائيل كى اس آيت كے تحت اس اصطلاح كى وضاحت كى جاچكى هے۔) اسى سانچه يا شاكله سے هر انسان كى استعداد كى حدود متعين هوتى هيں۔ اور كوئى انسان انگريزى محاوره: 'ones skin one cannot out grow' (كوئى انسان اپنى كھال سے باهر نهيں نكل سكتا) كے مصداق ان حدود سے تجاوز نهيں كرسكتا۔ هر انسان نيكى كرے گا تو اپنى اسى استعداد كے مطابق كرے گا اور اگر برائى كمائے گا تو ان هى حدود كے اندر ره كر ايسا كرے گا۔ غرض هر انسان كى عملى زندگى كى سارى محنت، كوشش اور بھاگ دوڑ اپنے شاكله كے مطابق هى هوگى اور الله تعالى كے هاں اس كى جانچ (evaluation) بھى اسى حوالے سے كى جائے گى۔ مثلاً ايك شخص كى صلاحيت پچاس درجے تك پهنچنے كى تھى، اگر وه چاليس درجے تك پهنچ گيا تو هوسكتا هے كه الله تعالى كے هاں وه كامياب قرار پائے۔ اس كے مقابلے ميں ايك دوسرا شخص جو سو درجے تك جانے كى استعداد ركھتا تھا، وه ممكن يے پچاس درجے تك پهنچنے كے بعد بھى ناكام رهے۔ بهر حال اس حوالے سے الله تعالى نے ايك اصول طے فرماديا كه (لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا) (البقرة: 286) «الله تعالى نهيں ذمه دار ٹھهرائے گا كسى جان كو مگر اس كى وسعت كے مطابق»۔

        اسى طرح انسان كى هدايت كے بھى دو درجے هيں۔ پهلا درجه تو جبلى هدايت كا هے۔ يعنى جس طرح الله تعالى نے اپنى هر مخلوق كو جبلى هدايت سے نواز ركھا هے اسى طرح اس نے هر انسان كو بھى فطرى اور جبلى طور پر هدايت كا ايك حصه عطا فرمايا هے۔ جب كه انسان كى هدايت كا دوسرا حصه وه هے جو الله تعالى نے اسے وحى كے ذريعے عطا فرمايا هے۔ يعنى انسان كى فطرت ميں پهلے سے وديعت شده بنيادى هدايت كى تكميل كے ليے الله تعالى نے دنيا ميں پيغمبر بھى بھيجے اور كتابيں نازل كيں۔

UP
X
<>