May 5, 2024

قرآن کریم > الغاشـيـة >sorah 88 ayat 20

وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ

اور زمین کو کہ اُسے کیسے بچھایا گیا؟

آيت 20: وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ: «اور (كيا يه ديكھتے نهيں) زمين كى طرف كه كيسے بچھا دى گئى هے!»

        ان آيات ميں الله تعالى كى آفاقى نشانيوں ميں سے چند نشانيوں كا ذكر كيا گيا هے۔ يه مضمون قرآن ميں بار بار آيا هے ليكن ان آيات ميں خصوصى طور پر قرآن مجيد كے مخاطبين اولين سے خطاب هے۔ نزول قرآن كے زمانے ميں سر زمين حجاز كے باشندوں كا زياده تر وقت صحرائى مسافتوں ميں گزرتا تھا، جيسا كه سوره قريش كى آيت (رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ) ميں بھى ذكر هوا هے۔ چناں چه اپنے سفروں كے دوران جس ماحول سے ان لوگوں كا دن رات واسطه رهتا تھا ان آيات ميں اسى ماحول كى چار چيزوں كو گنوا كر انهيں غور و فكر كى دعوت دى گئى هے۔ يعنى ايك وه اونٹ جو ان كے صحرائى سفر كى واحد سوارى تھى، اوپر آسمان، نيچے زمين اور اطراف و جوانب ميں پهاڑى سلسلے۔ يه تھا وه ماحول جس ميں عام طور پر ان لوگوں كے شب و روز گزرتے تھے۔

        بهر حال قرآن مجيد كى ايسى تمام آيات صاحب شعور انسانوں كو دعوت فكر ديتى هيں۔ كه تم لوگ ان مظاهر فطرت كو  غور سے ديكھا كرو۔ ان ميں سے ايك ايك چيز الله تعالى كى نشانى اور اس كى صناعى و خلاقى كا نمونه هے:

(إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ)

«يقيناً آسمان اور زمين كى تخليق ميں اور رات اور دن كے الٹ پھير ميں اور ان كشتيوں (اور جهازوں) ميں جو سمندر ميں (يا درياؤں ميں) لوگوں كے ليے نفع بخش سامان لے كر چلتى هيں اور اس پانى ميں كه جو الله نے آسمان سے اتارا هے پھر اس سے زندگى بخشى زمين كو اس كے مرده هوجانے كے بعد، اور هر قسم كے حيوانات (اور چرند پرند) اس كے اندر پھيلا ديے، اور هواؤں كى گردش ميں اور ان بادلوں ميں جو معلق كرديے گئے هيں آسمان اور زمين كے درميان، يقيناً نشانياں هيں ان لوگوں كے ليے جو عقل سے كام ليں۔»

        اسى حقيقت كو شيخ سعدى رحمه الله نے اپنے انداز ميں اس طرح بيان كيا هے:

برگ درختانِ سر سبز در نظر هوشيار    هر ورقش دفترے است معرفتِ كردگار!

كه ايك صاحب شعور انسان كے ليے سبز درختوں كا ايك ايك پتّا گويا معرفت خداوندى كا دفتر هے۔ شيخ سعدى رحمه الله نے تو اپنے زمانے ميں يه بات اپنى خدا داد بصيرت كى بنا پر كهى تھى ليكن آج سائنسى تحقيق سے هميں معلوم هوا هے كه سبز درختوں كا ايك ايك پتّا دراصل phtosynthesis كى فيكٹرى هے۔ يه فيكٹرياں سارا دن آكسيجن بنانے اور سورج كى روشنى كو جذب كركے درختوں كى لكڑى كى طرف منتقل كرنے ميں مصروف رهتى هيں۔

        ظاهر هے يه صفحات ايسى مثالوں كى تفصيل كے متحمل نهيں هوسكتے۔ اس حوالے سے انسان كے سمجھنے كى اصل بات يه هے كه وه الله تعالى كى تخليقات كو محض حيوانى آنكھ سے نهيں بلكه عقل اور شعور كى نظر سے ديكھے۔ علامه اقبال نے اس حوالے سے «زبور عجم» ميں كيا پتے كى بات كهى هے:

دم چيست؟ پيام است، شنيدى نشنيدى!               در خاك تو يك جلوه عام است نديدى!

ديدن دگر آموز، شنيدن دگر آموز!

        كه اے غافل انسان! تمهارا هر سانس الله تعالى كا پيغام هے۔ كيا تم نے اس پيغام كو كبھى سنا؟ نهيں سنا! اور تمهارى اس خاك (حيوانى جسم) كے اندر ايك جلعه ربانى (نورانى روح) بھى پوشيده هے، ليكن تم نے اس جلوے كو كبھى ديكھنے كى زحمت هى گوارا نهيں كى۔ چناں چه تمهيں چاهيے كه تم اس كائنات كى چيزوں كو حيوانى آنكھوں سے ديكھنا اور حيوانى كانوں سے سننا چھوڑو اور انسانوں كا سا ديكھنا اور سننا سيكھو۔ تم اشرف المخلوقات هو، تمهيں الله تعالى نے عقل و شعور سميت بهت سى اعلى صلاحيتوں سے نواز ركھا هے، ان صلاحيتوں كو استعمال ميں لاؤ۔ مظاهر فطرت اور دوسرى چيزوں كو ديكھو اور ان پر غور كرو: (خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا) (البقرة: 29) يه زمين پر جو كچھ هے سب الله نے تمهارے ليے پيدا كيا هے۔ ان چيزوں پر تحقيق كرو، نئے نئے قوانين فطرت كو تلاش كرو، انهيں كام ميں لاؤ۔ تمهيں زمين پر الله تعالى كى خلافت عطا هوئى هے۔ اس حيثيت سے خود زمين، اس پر موجود تمام چيزيں، يه هوائيں، يه فضائيں، ستارے، سيارے، كهكشائيں سب تمهارے ليے مسخر هيں۔ ياد ركھو! اگر تم عقل و شعور سے كام لو گے تو ان پر حكومت كرو گے، ليكن اگر تم توهمات ميں پڑجاؤ گے تو ان چيزوں كے غلام بن جاؤ گے۔

UP
X
<>