April 19, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 12

وَإِن نَّكَثُواْ أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُواْ فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لاَ أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ 

اور اگر ان لوگوں نے اپنا عہد دے دینے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالی ہوں ، اورتمہارے دین کو طعنے دیئے ہوں ، تو ایسے کفر کے سربراہوں سے اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں ، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حقیقت نہیں

آیت ۱۲: وَاِنْ نَّـکَثُوْٓا اَیْمَانَہُمْ مِّنْ بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ: ‘‘اور اگر وہ توڑ ڈالیں اپنے قول و قرار کو عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں‘‘

            فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ اِنَّہُمْ لَآ اَیْمَانَ لَہُمْ: ‘‘تو تم جنگ کرو کفر کے ان اماموں سے‘ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں‘‘

            یہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے اندر کافر اور مشرک تو بہت تھے مگر یہاں خصوصی طور پر کفر اور شرک کے پیشواؤں سے جنگ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ یہ ‘‘ائمّۃ الکفر‘‘(کفر کے امام) قریش تھے۔ وہ کعبہ کے متولی اور تمام قبائل کے بتوں کے مجاور تھے۔ دوسری طرف سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی لحاظ سے مکہ کو ‘‘اُمّ القریٰ‘‘ کی حیثیت حاصل تھی اور وہ ان کے زیر ِتسلط تھا۔ اُس وقت اگرچہ جزیرہ نمائے عرب میں نہ کوئی مرکزی حکومت تھی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مرکزی دارالحکومت تھا‘ مگر پھر بھی اس پورے خطے کا مرکزی شہر اور معنوی صدر مقام مکہ ہی تھا‘ اور اس مرکزی شہر اور اُمّ القریٰ میں واقع اللہ کے گھر کو قریش نے شرک کا اڈا بنایا ہوا تھا۔ اس لیے جب تک ان کو شکست دے کر مکہ کو کفر اور شرک سے پاک نہ کر دیا جاتا‘ جزیرہ نمائے عرب کے اندر دین کے غلبے کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے یہاں: فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ. کا واضح حکم دیا گیا ہے‘ کہ جب تک کفر کے ان سرغنوں کا سر نہیں کچلا جائے گا اور شرک کے اس مرکزی اڈے کو ختم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک سرزمین عرب میں دین کے کلی غلبے کی راہ ہموار نہیں ہو گی۔

            لَـعَلَّہُمْ یَنْتَہُوْنَ: ‘‘شاید کہ (اس طرح) وہ باز آ جائیں۔‘‘

            یعنی ان پر سختی کی جائے گی تو شاید باز آ جائیں گے‘ نرمی سے یہ ماننے والے نہیں ہیں۔ 

UP
X
<>