April 24, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 31

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ 

انہوں نے اﷲ کے بجائے اپنے اَحبار (یعنی یہودی علماء) اور راہبوں (یعنی عیسائی درویشوں ) کو خدا بنالیا ہے، اور مسیح ابنِ مریم کو بھی، حالانکہ اُن کا ایک خدا کے سوا کسی کی عبادت کرنے کاحکم نہیں دیا گیا تھا۔ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔ وہ اُن کی مشرکانہ باتوں سے بالکل پاک ہے

 آیت 31: اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ: ‘‘انہوں نے اپنے احبارورہبان کو ربّ بنا لیا اللہ کے سوا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔‘‘

            عیسائیوں میں دوسری بڑی گمراہی یہ پیدا ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ اور حضرت عیسی کو بھی الوہیت میں حصہ دار بنا لیا تھا۔ حضرت عیسیٰ تو ان کے ہاں باقاعدہ تین خداؤں میں سے ایک تھے اور اس حیثیت میں وہ آپ کی پرستش بھی کرتے تھے‘ مگر احبار و رہبان کو رب ماننے کی کیفیت ذرا مختلف تھی۔ حضرت عدی بن حاتم (جنہوں نے عیسائیت سے اسلام قبول کیا تھا) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس آیت کے بارے میں وضاحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:

 «اَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَـکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَلٰـکِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا اَحَلُّوْا شَیْئًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھُمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ»

‘‘وہ ان (احبار و رہبان) کی عبادت تو نہیں کرتے تھے‘ لیکن جب وہ کسی شے کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال مان لیتے اور جب کسی شے کو حرام قرار دیتے تو اسے حرام مان لیتے۔‘‘

یعنی حلال و حرام کے بارے میں قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے‘ اور اگر کوئی دوسرا اس حق کو استعمال کرتا ہے تو گویا وہ اللہ کی الوہیت میں حصہ دار بن رہا ہے‘ اور جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی کا یہ حق تسلیم کرتا ہے وہ گویا اسے اللہ کے سوا اپنا رب تسلیم کر رہا ہے۔

            آج بھی پوپ کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔ جیسا کہ اُس نے ایک فرمان کے ذریعے سے یہودیوں کو دو ہزار سال پرانے اس الزام سے بری کر دیا‘ کہ انہوں نے حضرت مسیح کو سولی پر چڑھایا تھا۔ گویا اسے تاریخ تک کو بدل دینے کا اختیار ہے‘ اسی طرح وہ کسی حرام چیز کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے۔ اس طرح کے تصورات ہمارے ہاں اسماعیلیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا امامِ حاضر معصوم ہوتا ہے اور اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال کر دے اور جس چیز کو چاہے حرام کر دے۔ اس طرح انہوں نے شریعت کو ساقط کر دیا ہے۔ تاہم یہ معاملہ بالخصوص گجرات (انڈیا) کے علاقے میں بسنے والے اسماعیلیوں کا ہے‘ جبکہ ہنزہ میں جو اسماعیلی آباد ہیں اُن کے ہاں شریعت موجود ہے‘ کیونکہ یہ پرانے اسماعیلی ہیں جو باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ گجرات (انڈیا) کے علاقہ میں اسماعیلیوں نے جب مقامی آبادی میں اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی تو انہوں نے وہی کیا جو سینٹ پال نے کیا تھا۔ انہوں نے شریعت کو ساقط کر دیا اور ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اوتار کا عقیدہ اپنا لیا۔ مقامی ہندو آبادی میں اپنے نظریات کی آسان ترویج کے لیے انہوں نے حضرت علی کو دسویں اوتار کے طور پر پیش کیا (ہندوؤں کے ہاں نو اوتار کا عقیدہ رائج تھا)۔ لہٰذا ‘‘دشتم اوتار‘‘ کا عقیدہ مستقل طور پر اُن کے ہاں رائج ہو گیا۔ اس کے علاوہ اُن کے حاضر امام کو مکمل اختیار ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم کو چاہے منسوخ کر دے‘ کسی حلال چیز کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے۔

            وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ سُبْحٰنَہ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ: ‘‘انہیں نہیں حکم دیا گیا تھا مگر اسی بات کا کہ وہ پوجیں صرف ایک الٰہ کو‘ نہیں ہے کوئی معبود اس کے سوا۔ وہ پاک ہے اس سے جو شرک یہ لوگ کر رہے ہیں۔‘‘

UP
X
<>