April 25, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 45

إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ 

تم سے اجازت تو وہ لوگ مانگتے ہیں جو اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں ، اور وہ اپنے شک کی وجہ سے ڈانو اڈول ہیں

 آیت 45: اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ: ‘‘آپ سے رخصت تو وہی مانگ رہے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘ اور ان کے دل شکوک میں پڑ گئے ہیں‘‘

            یہاں سورۃ الحجرات کی مذکورہ  آیت کے الفاظ «ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا» ذہن میں دوبارہ تازہ کر لیجئے کہ مؤمن تو وہی ہیں جو ایمان لانے کے بعد شک میں نہ پڑیں‘ اور یہاں «وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ» کے الفاظ سے واضح فرما دیا کہ ان منافقین کے دلوں کے اندر تو شکوک و شبہات مستقل طور پر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔

            فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ: ‘‘اور وہ اپنے اسی شک و شبہ کے اندر متردد ہیں۔‘‘

            اپنے ایمان کے اندر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں اورجہاد کے لیے نکلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی اُن کو مسلمانوں کے ساتھ چلنے میں مصلحت نظر آتی کہ نہ جانے سے ایمان کا ظاہری بھرم بھی جاتا رہے گا‘ مگر پھر فوراً ہی مسافت کی مشقت کے تصور سے دل بیٹھ جاتا‘ دُنیوی مفادات کا تصور پاؤں کی بیڑی بن جاتا اور پھر سے جھوٹے بہانے بننے شروع ہو جاتے۔ 

UP
X
<>