March 29, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 7

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُواْ لَكُمْ فَاسْتَقِيمُواْ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ 

ان مشرکین سے اﷲ اور اُس کے رسول کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے باقی رہ سکتا ہے ؟ البتہ جن لوگوں سے تم نے مسجدِ حرام کے قریب معاہد کیا ہے، جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں ، تم بھی اُن کے ساتھ سیدھے رہو۔ بیشک اﷲ متقی لوگوں کو پسند کرتا ہے

آیت 7:  کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہ: ‘‘کیسے ہو سکتا ہے مشرکین کے لیے کوئی عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک؟‘‘

             یہاں پر اُس پس منظر کو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس سے قبل مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ ہو چکی تھی‘ لیکن اس معاہدے کو خود قریش کے ایک قبیلے نے توڑ دیا۔ بعد میں جب قریش کو اپنی غلطی اور معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے سردار ابو سفیان کو تجدید صلح کی درخواست کے لیے رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا۔ مدینہ پہنچ کر ابوسفیان سفارش کے لیے حضرت علی اور اپنی بیٹی حضرت اُمِّ حبیبہ (اُمّ المؤمنین) سے ملے۔ اِن دونوں شخصیات کی طرف سے اُن کی سرے سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ بلکہ حضرت اُمِّ حبیبہ کے ہاں تو ابو سفیان کو عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ جب اپنی بیٹی کے ہاں گئے تو حضور کا بستر بچھا ہوا تھا‘ وہ بستر پر بیٹھنے لگے تو اُمِّ حبیبہ نے فرمایا کہ ابا جان ذرا ٹھہریے! اس پر وہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بیٹی نے بستر تہ کر دیا اور فرمایا کہ ہاں ابا جان اب بیٹھ جائیے۔ ابوسفیان کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی‘ وہ قریش کے سب سے بڑے سردار اور رئیس تھے اور بستر تہ کرنے والی ان کی اپنی بیٹی تھی۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا:  بیٹی! کیا یہ بستر میرے لائق نہیں تھا یا میں اس بستر کے لائق نہیں؟ بیٹی نے جواب دیا: ابا جان! آپ اس بستر کے لائق نہیں۔ یہ اللہ کے نبی کا بستر ہے اور آپ مشرک ہیں ! چنانچہ ابو سفیان اب کہیں تو کیا کہیں ! وہ تو آئے تھے بیٹی سے سفارش کروانے کے لیے اوریہاں تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہو گیا۔ چنانچہ مطلب کی بات کے لیے تو زبان بھی نہ کھل سکی ہو گی۔

            بہر حال ابو سفیان نے رسول اللہ سے مل کر تجدید صلح کی درخواست کی مگر حضور نے قبول نہیں فرمائی۔ اِن حالات میں ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے چہ می گوئیاں کی ہوں کہ دیکھیں جی قریش کا سردار خود چل کر آیا تھا‘ صلح کی بھیک مانگ رہا تھا‘ صلح بہتر ہوتی ہے‘ حضور کیوں صلح نہیں کر رہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ اس پس منظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ان مشرکین کے لیے اب کوئی معاہدہ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ یعنی ان کے کسی عہد کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر کس طرح باقی رہ سکتی ہے؟

            اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: ‘‘سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا مسجد ِحرام کے پاس۔‘‘

            اس معاہدے سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔

            فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ: ‘‘تو جب تک وہ تمہارے لیے (اس پر) قائم رہیں تم بھی ان کے لیے (معاہدے پر) قائم رہو۔ بے شک اللہ متّقین کو پسند کرتا ہے۔‘‘

            یعنی جب تک مشرکین صلح کے اس معاہدے پر قائم رہے‘ تم لوگوں نے بھی اس کی پوری پوری پابندی کی‘ مگر اب جب کہ وہ خود ہی اسے توڑ چکے ہیں تو اب تمہارے اوپر اس سلسلے میں کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ہے کہ لازماً اس معاہدے کی تجدید کی جائے۔ رسول اللہ کو معلوم تھا کہ اب ان مشرکین میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ مقابلہ کر سکیں۔ ان حالات میں معاہدے کی تجدید کا مطلب تو یہ تھا کہ کفر اور شرک کو اپنی مذموم سرگرمیوں کے لیے پھر سے کھلی چھٹی (fresh lease of existance) مل جائے۔ اس لیے حضور نے معاہدے کی تجدید قبول نہیں فرمائی۔ 

UP
X
<>