April 23, 2024

قرآن کریم > الـشـمـس >sorah 91 ayat 10

وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا

اور نامراد وہ ہوگا جو اُس کو (گناہ میں ) دھنسادے

آيت 10: وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا: «اور ناكام هوگيا وه جس نے اسے مٹى ميں دفن كرديا۔»

          يه اس سورت كا مركزى مضمون هے۔ ان دو آيات ميں انتهائى اختصار كے ساتھ انسان كى حقيقى كاميابى اور ناكامى كا معيار بيان كرديا گيا هے۔ دَسَّ يدُسُّ كے معنى كسى چيز كو مٹى ميں دفن كردينے كے هيں۔ سورة النحل (آيت 59) ميں هم پڑھ چكے هيں: (أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ) اس آيت ميں قبل از اسلام زمانے كے عربوں كى ايك خاص ذهنيت كے بارے ميں بتايا گيا هے كه ان ميں سے جس شخص كے گھر بيٹى پيدا هوتى هے وه يا تو اسے ذلت آميز طريقے سے زنده ركھتا هے يا زنده دفن كرديتا هے۔ يهاں «دَسَّى» دراصل دَسَّسَ (باب تفعيل) هے، اس كے آخرى سين كو يا سے بدل ديا گيا هے۔ تو جس انسان نے اپنے نفس كو مٹى ميں دفن كرديا (اس كا ايك مفهوم يه بھى هے كه جس نے اپنى روح كو اپنے خاكى وجود كے اندر دبا ديا۔ يعنى جس كى حيوانى خواهشات و شهوات اس كى روح پر غالب آگئيں) تو وه ناكام رها۔ البته جيسا كه سورة الاعلى كے مطالعه كے دوران بھى نشان دهى كى گئى هے، زير مطالعه سورتوں كے مضامين ميں سے اكثر كا تعلق سورة الاعلى كے مضامين كے ساتھ هے۔ چناں چه سورة الاعلى ميں (قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى) كے الفاظ ميں جو مضمون انتهائى مختصر انداز ميں آيا تھا، يوں سمجھيں كه اب آيات زير مطالعه ميں اس مضمون كى مزيد تفصيل بيان هوئى هے۔ اس مضمون پر قسموں كى صورت ميں يهاں مزيد گواهياں بھى لائى گئى هيں اور زير مطالعه آيت كے الفاظ (وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا) ميں تصوير كا دوسرا رخ بھى دكھايا گيا هے۔

          دراصل انسان كا نفس اس كے پاس الله تعالى كى امانت هے۔ اس امانت كو پاك صاف ركھنا اس كى ذمه دارى هے۔ نفس كو پاك كرنے كا مطلب يه هے كه انسان اپنے آپ كو يعنى اپنى شخصيت كو تمام رذائل اور باطنى بيماريوں سے پاك كركے بهترين انسانى خوبيوں كا مرقع بنائے۔ اس كے ليے همارے هاں عام طور پر تزكيه نفس، تعمير سيرت، تعمير خودى وغيره اصطلاحات استعمال هوتى هيں۔ بهر حال الله تعالى كى نظر ميں كامياب انسان وهى هے جو اپنے نفس كو پاك كرنے اور پاك ركھنے ميں كامياب هوگيا، خواه دنيا والوں كى نظروں ميں وه حقير، فقير اور بے نام هى كيوں نه هو۔ اس كے برعكس جس انسان نے اپنے نفس كو رذائل و خبائث سے آلوده كرليا، الله تعالى كے نزديك وه ناكام هے، دنيا ميں خواه وه غير معمولى عزت، شهرت اور دولت كا مالك هى كيوں نه هو۔ اس ليے كه اصل اور حقيقى كاميابى اور ناكامى كا تعلق انسان كے ظاهر سے نهيں بلكه اس كى ذات سے هے۔

          انسان كى ذات سے كيا مراد هے؟ فرائڈ نے اسے انسان كى self (انا) كا نام ديا هے۔ اس كے نزديك انسان كى اصل كاميابى يه هے كه وه اپنى self كو id اور libido كے تسلط سے آزاد كراكے اسے مثبت انداز ميں ترقى دے۔ بهر حال اس حوالے سے سمجھنے كا اصل نكته يه هے كه انسان محض ايك جسم يا هاتھ پاؤں، سر، دھڑ وغيره كے مجموعے كا نام نهيں هے۔ انسان كهتا هے ميرا هاتھ، ميرا پاؤں، ميرا سر وغيره۔ يه تمام اعضاء بے شك اس كے هيں، ليكن وه انسان جو ان اعضاء كو اپنا بتارها هے وه خود كيا هے؟ اور كهاں هے؟ ظاهر هے اصل انسان اس جسم يا وجود كے اندر هے۔ اس كو ايسے سمجھيں كه جس طرح آم كى گٹھلى كے اندر آم كا پورا درخت موجود هے، اسى طرح انسانى جسم يا وجود كے اندر اصل انسان ايك لطيف شخصيت كى صورت ميں موجود هے، يه لطيف شخصيت عبارت هے اس روح سے جو الله تعالى نے اس كے حيوانى يا خاكى وجود كے اندر پھونكى هے: (وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي) (الحجر 39)۔

          روح يا انسان كى اس انا كا ذكر اپنشد كے اس فقرے ميں بھى هے، جس كا حواله ميں پهلے بھى دے چكا هوں:

Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths that encompass his real self۔

گويا انسان كى  self يا انا يا خودى يا روح اس كے حيوانى وجود كى مٹى كے اندر دفن ايك خزانه هے۔ اب جو  انسان اس خزانے كو مٹى سے نكال كر كام ميں لے آئے گا يعنى اپنى روح كو صيقل كرلے گا، اس كا نفس پاك هوجائے گا۔ (روح كى پاكيزگى نفس كى پاكيزگى كا باعث بنتى هے۔ دونوں كا تعلق انسان كے باطن سے هے) اور وه كاميابى يا فلاح كے راستے پر گامزن هوجائے گا۔ (فلاح كا لفظ قرآن مجيد ميں ايك جامع اصطلاح كے طور پر استعمال هوا هے۔ اس اصطلاح كے مفهوم كى تفصيل كے ليے ملاحظه هو سورة المؤمنون كى پهلى آيت كى تشريح۔)

          زير مطالعه آيات كے حوالے سے يه نكته خصوصى طور پر پيش نظر رهنا چاهيے كه انسان كى روح اور اس كا نفس دو الگ الگ چيزيں هيں اور ان آيات ميں انسانى روح كا نهيں بلكه انسانى نفس كا ذكر هوا هے۔ روح انسانى دراصل عالم امر كى كوئى چيز هے اور يه معرفت خداوندى اور محبت خداوندى كى امين هے، جب كه نفس انسانى كا تعلق عالم خلق سے هے۔ روح تمام مخلوقات ميں سے صرف انسان كو عطاهوئى هے، جب كه نفس گدھے، گھوڑے اور چمپينزى وغيره سب جانوروں ميں هوتا هے۔ البته انسان كى خصوصيت اس حوالے سے يه هے كه دوسرے جانوروں كے مقابلے ميں نفس انسانى كو الله تعالى نے خصوصى ارتقائى درجات سے نوازا هے اور اس كے اندر اخلاقى حس اور نيكى وبدى كى وه تميز الهام كردى هے جو دوسرے جانوروں كے نفس ميں نهيں پائى جاتى۔ اسى حس اور تميز كى وجه سے انسانى فطرت آفاقى سطح پر نيكى كو اچھا اور بدى كو برا سمجھتى هے۔ دنيا ميں كسى معاشرے، كسى مذهب اور كسى نسل كا انسان هو وه سچ بولنے كو اچھا اور جھوٹ بولنے كو برا سمجھتا هے۔ اس حوالے سے قرآن ميں معروف اور منكر كى اصطلاحات كثرت سے استعمال هوتى هيں۔ معروف وه چيزيں يا افعال يا اعمال هيں جو نفس انسانى كے ليے مانوس هيں۔ انهيں ديكھ كر يا اپنا كر نفس انسانى كو راحت محسوس هوتى هے۔ اس كے مقابلے ميں منكرات وه چيزيں يا اعمال يا افعال هيں جنهيں نفس انسانى برا سمجھتا هے اور جن كى صحبت و معيت ميں وه اجنبيت اور كوفت محسوس كرتا هے، بلكه وه انسان كو ايسے اعمال و افعال سے ٹوكتا هے۔ اسى ليے انسان غلطى كرنے كے بعد اكثر يه كهتا پايا جاتا هے كه «ميرا ضمير مجھے ملامت كررها هے» (my conscience is pinching me) ۔ نفس انسانى كى اسى خصوصيت كى وجه سے سورة القيامة كى آيت 4 ميں اسے نفس لوامه (ملامت كرنے والا نفس) كا نام ديا گيا هے۔

          اس حوالے سے آيات زير مطالعه كا بنيادى پيغام يه هے كه نفس انسانى كے اندر الله تعالى كى طرف سے نيكى اور بدى كى تميز كا بنيادى بيج ڈال ديا گيا هے۔ اب انسان كا كام يه هے كه وه اس بيج كى حفاظت كرے، اسے سازگار ماحول فراهم كرے اور عمل صالح كے پانى سے اس كى آبيارى كرے۔ سوره فاطر (آيت 10) ميں الله تعالى كا فرمان هے: (إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) كه كسى بھى اچھى بات يا اچھے كلام ميں الله تعالى كے حضور پهنچنے كى صلاحيت تو هوتى هے ليكن عمل صالح اس كى اس صلاحيت كو اور بڑھاديتا هے۔ چناں چه انسان جب تزكيه نفس اور اعمال صالحه كے حوالے سے محنت كرے گا تو اسے ايمان كى حلاوت بھى نصيب هوگى، وه ايمان كے ان ثمرات سے بھى بهره مند هوگا جن كا ذكر هم سورة التغابن ميں پڑھ آئے هيں اور اسے كاميابى كى ضمانت بھى ملے گى۔ اس كے برعكس جس انسان نے اپنے نفس كو حيوانى وجود كے تابع كيے ركھا اور وه اس كى آواز كو دبا كر زندگى بھر جسمانى تقاضے پورے كرنے ميں لگا رها وه گويا خائب و خاسر هوكر ره گيا۔

          اب اگلى آيات ميں ايك قوم يا ايك معاشرے كے اجتماعى ضمير كے حوالے سے ايك مثال دى گئى هے۔ ظاهر هے جس طرح ايك انسان كے اندر نيكى اور بدى كى تميز هوتى هے اسى طرح هر معاشرے كے اندر بھى نيكى كے علم بردار اور شر پھيلانے والے عناصر موجود هوتے هيں۔ غرض جس طرح ايك فرد كا ضمير هوتا هے اسى طرح معاشروں اور قوموں كا اجتماعى ضمير بھى هوتا هے۔ چناں چه اگر كسى قوم كا اجتماعى ضمير زنده هو، اس كى صفوں ميں امر بالمعروف اور نهى عن المنكر كا فريضه احسن طريقه سے ادا كيا جارها هو تو اس قوم كے مجموعى حالات بهتر طور پر چلتے رهتے هيں۔ ليكن اگر كسى قوم كا اجتماعى ضمير مرده هوجائے اور اس كى اخلاقى حس بحيثيت مجموعى اس قدر كمزور هوجائے كه اس كے ماحول ميں برائى كو برائى كهنے والا كوئى نه رهے تو ايسى قوم اپنے زنده رهنے كا جواز كھو ديتى هے۔ علامه اقبال نے اپنے اس شعر ميں اسى اجتماعى بے حسى كى تصوير پيش كى هے:

وائے ناكامى متاع كارواں جاتا رها    كارواں كے دل سے احساس زياں جاتا رها!

          اس حوالے سے اب ملاحظه هو قوم ثمود كى مثال:

UP
X
<>