April 19, 2024

قرآن کریم > الم نـشرح >sorah 94 ayat 6

إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

یقینا مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے

آيت 6: إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا: «يقيناً مشكل هى كے ساتھ آسانى هے۔»

          يه سورت دراصل مشكلات القرآن ميں سے هے۔ آيت 2 ميں جس بوجھ كا ذكر هوا هے اس كے بارے ميں عام طور پر يه سمجھا گيا هے كه اس ميں حضور صلى الله عليه وسلم كى دعوت و تبليغ كى مشقتوں اور لوگوں كى طرف سے پهنچائى جانے والى اذيتوں كى طرف اشاره هے۔ ميں سمجھتا هوں كه يه رائے صرف جزوى طور پر درست هے اس ليے كه يه سورت بالكل ابتدائى زمانے ميں نازل هوئى تھى۔ اس زمانے ميں حضور صلى الله عليه وسلم كى مشكلات كا ابھى آغاز هورها تھا اور بعد كے زمانے ميں آپ صلى الله عليه وسلم كو نسبتاً بهت زياده مشكل مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ مثلاً شعب ابى طالب ميں تين سال كى قيد كا واقعه اس سورت كے نزول كے بعد پيش آيا اور اس كے بعد هى آپ صلى الله عليه وسلم كو يوم طائف اور يوم احد جيسے گھمبير حالات كا سامنا كرنا پڑا۔  دعوت و تبليغ اور آپ كے فريضه رسالت سے  متعلقه مشكلات بھى اس سورت كے نزول كے بعد كم هونے كے بجائے مزيد بڑھيں، بلكه بڑھتى چلى گئيں۔ اس ليے يه حقيقت تسليم كيے بغير چاره نهيں كه يهاں جس بوجھ كے اتار دينے كا ذكر هوا هے وه اصل ميں كوئى اور بوجھ تھا۔

          اس بوجھ كى كيفيت كے بارے ميں جاننے كے ليے پهلے اس حقيقت كو سمجھنا ضرورى هے كه الله تعالى اپنے برگزيده پيغمبروں كو اپنے قرب خاص كى نعمت سے نوازتا هے۔ چناں چه قرب خاص كى لذت سے آشنا هوجانے كے بعد انبياء ورسل عليهم السلام كى سب سے بڑى خواهش يه هوتى هے كه وه زياده سے زياده وقت اسى كيفيت ميں گزاريں۔ ليكن وهاں سے حكم ملتا هے كه جاؤ خلق خدا تك ميرا پيغام پهنچاؤ اور انهيں هدايت كا راسته دكھاؤ! مثلاً الله تعالى نے جب حضرت موسى عليه السلام كو كوه طور پر اپنے قربِ خاص سے نوازا اور آپ عليه السلام سے كلام فرمايا تو اس وقت حضرت موسى عليه السلام كى خواهش تو يهى هوگى كه وه سدا اسى كيفيت ميں رهتے هوئے الله تعالى سے مكالمے اور مخاطبے كى لذت سے لطف اندوز هوتے رهيں۔ ليكن اس كے فوراً بعد آپ عليه السلام كو الله تعالى كى طرف سے حكم ملا: (اِذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى) (طه) «اب جاؤ فرعون كى طرف، وه بڑا سركش هوگيا هے!» ظاهر هے فريضه رسالت كى ادائيگى كوئى آسان كام تو نهيں۔ اس بارے ميں اصل حقيقت كسى سے ڈھكى چھپى نهيں كه پيغمبروں كى دعوت كے جواب ميں لوگوں كى طرف سے بے اعتنائى برتى جاتى تھى اور طنز و تمسخر كے تير برسائے جاتے تھے، حتى كه جسمانى اذيت پهنچانے سے بھى دريغ نهيں كيا جاتا تھا۔ الغرض اس راستے ميں تو هر قدم پر مخالفت اور هر موڑ پر تكاليف و مصائب كا سامنا كرنا پڑتا هے۔ چناں چه ايسى صورت حال ميں پيغمبروں كو دوهرى مشكل كا سامنا رها هے يعنى ايك طرف قرب و حضورى كى خصوصى كيفيت سے باهر آنے كا ملال اور دوسرى طرف لوگوں كے رويے كے باعث دل پر تكدر كا بوجھ۔ كهاں وه قرب خاص كا كيف وسرور اور كهاں يه مشقت بھرى مصروفيات۔ روح اور طبيعت كا ميلان تو ظاهر هے اسى طرف هوگا كه وهى خلوت هو، وهى حضورى هو اور وهى كيف و سرور هو۔ غالب نے اپنى زبان اور اپنے انداز ميں محبوب كى قربت كے حوالے سے انسان كى اس كيفيت اور خواهش كى ترجمانى يوں كى هے:

دل ڈھونڈتا هے پھر وهى فرصت، كه رات دن       بيٹھے رهيں تصور جاناں كيے هوئے!

          اس صورت حال يا كيفيت كوعلامه اقبال كے بيان كرده اس واقعه كے حواله سے بھى سمجھا جاسكتا هے۔ علامه اقبال اپنے خطبات (چوتھے ليكچر) ميں فرماتے هيں كه ايك مرتبه حضرت عبد القدوس گنگوهى رحمه الله دنيا وما فيها سے بے خبر مراقبے كى كيفيت ميں بيٹھے تھے۔ اسى اثنا ميں انهيں اقامت كى آواز سنائى دى۔ آپ رحمه الله فوراً نماز كے ليے كھڑے تو هوگئے مگر جھنجھلا كر كها: «حضورى سے نكال كر دربانى ميں كھڑا كرديا!» اب ظاهر هے حضورى كى كيفيت ميں تو اور هى لذت تھى جب كه نماز ميں جماعت كا نظم ملحوظ ركھنے كى پابندى هے اور هر صورت ميں امام كى اقتدا ضرورى هے۔ فرض كريں مقتدى كو تلاوت سننے ميں لذت محسوس هورهى هے اور وه مزيد سننا چاهتا هے ليكن يهاں وه ايسا نهيں كرسكتا۔ ظاهر هے جب امام قراءت ختم كركے ركوع ميں جائے گا تو اسے اس كى اقتدا كرنى هوگى۔ اگر وه دير تك سجده ميں هى پڑے رهنا چاهتا هے تو بھى اسے اپنا سجده مختصر كركے امام كى اقتدا ميں سر اٹھانا هوگا۔

          اس تمهيدى وضاحت كو مدنظر ركھتے هوئے اب آپ حضور صلى الله عليه وسلم كى اس كيفيت كا تصور كيجيے جب حضور صلى الله عليه وسلم رات كى تنهائى ميں الله تعالى كے حضور كھڑے هوكر قرآن مجيد كى تلاوت كرتے تھے۔ اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم كى روح كيسى كيسى قربتوں اور رفعتوں سے آشنا هوتى هوگى اور آپ صلى الله عليه وسلم كے قلب مبارك پر كيسے كيسے انوار وتجليات كى بارش هوتى هوگى۔ پھر صبح كو جب آپ صلى الله عليه وسلم اهل مكه كے درميان جا كر ان سے شاعر، مجنون، كذاب (نعوذ بالله) جيسے القابات سنتے هوں گے اور ان كے تمسخر بھرے جملوں كا سامنا كرتے هوں گے تو آپ صلى الله عليه وسلم اپنى طبيعت ميں كيسا تكدر اور كيسى كوفت محسوس كرتے هوں گے۔ چناں چه حضور صلى الله عليه وسلم كے ليے اصل معامله يه تھا كه «عروج» (قرب خاص) كى لذت كے بعد «نزول» كا مرحله آپ صلى الله عليه وسلم پر بهت شاق گذرتا تھا۔ اور يهى وه «بوجھ» تھا جو آپ صلى الله عليه وسلم كى كمر كو دهرا كيے دے رها تھا۔ البته رفته رفته آپ صلى الله عليه وسلم كا مزاج جب اس معمول كا خوگر هوگيا تو اس بوجھ كے احساس ميں كمى واقع هوتى گئى۔ پھر جب روز بروز اهل ايمان كى تعداد بڑھنا شروع هوئى تو دعوت وتحريك كى مصروفيات ميں بھى الله تعالى نے آپ صلى الله عليه وسلم كے ليے تسكين كا سامان پيدا فرماديا۔

          بهر حال يهاں پر يه نكته بھى لائق توجه هے كه فريضه رسالت كى انجام دهى كے ليے عروج اور نزول (ان كيفيات كے ليے صوفياء كے هاں سير الى الله اور سير عن الله كى اصطلاحات بھى معروف هيں) كى دونوں كيفيات كا بيك وقت باهم متوازى چلنا ضرورى هے۔ اس نكته لطيف كو مولانا روم نے بارش كى مثال سے بهت مؤثر انداز ميں سمجھايا هے۔ مولانا كى بيان كرده اس حكايت كا خلاصه يه هے كه سمندر سے بخارات كى شكل ميں بالكل صاف اور پاكيزه پانى فضا ميں پهنچتا هے۔ بارش برستى هے تو يه صاف پانى فضا كى كدورتوں كو بھى صاف كرتا هے، زمين كى گندگيوں كو بھى اپنے ساتھ بها كر سمندر ميں ڈال ديتا هے اور اس كے بعد سمندر سے پھر بخارات بن كر صاف اور پاكيزه حالت ميں بارش كى طرح برستى اور راستے ميں آنے والى تمام ظاهرى و باطنى آلائشوں اور كدورتوں كو دھو ڈالتى۔ اسى دوران لوگوں كى مخالفت اور گھٹيا حركات كے باعث آپ صلى الله عليه وسلم كى روحانيت ميں كچھ تكدر بھى پيدا هوتا، جسے سير الى الله كے اگلے مرحلے ميں صاف كرديا جاتا اور يه سلسله يوں هى چلتا رهتا۔

          يهاں ضمنى طور پر يه نكته بھى سمجھ ليجيے كه نتائج كے اعتبار سے تو دعوت و تبليغ كى مصروفيات بھى سير الى الله هى كے زمرے ميں آتى هيں ليكن عملى طور پر اس كى كيفيت بظاهر سير عن الله جيسى هے۔ جيسے نماز كى حالت ميں انسان كا رخ الله كى طرف هوتا هے ليكن ايك داعى جب نماز سے فارغ هوكر تبليغ كے ليے نكلتا هے تو بظاهر اس كى پشت الله كى طرف هوتى هے اور رخ لوگوں كى طرف هوتا هے۔

UP
X
<>