April 27, 2024

قرآن کریم > الـبينة >sorah 98 ayat 5

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ

اور انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اﷲ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں ، اور نماز قائم کریں ، اور زکوٰۃ اداکریں ، اور یہی سیدھی سچی اُمت کا دین ہے

آيت 5: وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ: «اور انهيں حكم نهيں هوا تھا مگر يه كه وه بندگى كريں الله كى، اپنى اطاعت كو اس كے ليے خالص كرتے هوئے، بالكل يكسو هوكر»

        يه حكم گويا پورے دين كا خلاصه هے جو اس سے پهلے سورة الزمر (آيات 2، 3، اور 14) ميں بهت تاكيد اور شد ومد كے ساتھ بيان هوچكا هے۔ يعنى الله تعالى كى عبادت اس كى پورى اطاعت كے ساتھ كريں۔ يه نهيں كه نماز بھى پڑھے جا رهے هيں اور حرام خوريوں سے بھى باز نهيں آتے۔ گويا الله تعالى كى اطاعت كے ساتھ ساتھ اپنے نفس كى اطاعت بھى جارى هے۔ ايسى آيات دراصل هميں خبردار كرتى هيں كه جزوى بندگى اور ساجھے كى اطاعت الله تعالى كو هرگز قابل قبول نهيں۔ اور يه كه اگر هم اس جرم كا ارتكاب كريں گے تو هم بھى اسى وعيد كے مستحق هوں گے جو اس حوالے سے بنى اسرائيل كو سنائى گئى تھى۔ ملاحظه هوں اس وعيد كے يه الفاظ: ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ (البقرة: 85) «تو كيا تم كتاب كے ايك حصے كو مانتے هو اور ايك كو نهيں مانتے؟ تو نهيں هے كوئى سزا اس كى جو يه حركت كرے تم ميں سے سوائے ذلت ورسوائى كے دنيا كى زندگى ميں، اور قيامت كے روز وه لوٹا ديے جائيں گے شديد ترين عذاب كى طرف»۔ بلكه اس حوالے سے اصل حقيقت تو يه هے كه اس آيت ميں دنيا كے جس عذاب كا ذكر هے ﴿خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ وه اس وقت بحيثيت امت هم پر مسلط هو بھى چكا هے۔ مقام عبرت هے! آج مسلمانوں كى آبادى دو ارب سے بھى زياده هے، دنيا كے بهترين خطے اور بهترين وسائل ان كے قبضے ميں هيں، مگر اس كے باوجود عزت نام كى كوئى چيز ان كے پاس نهيں۔ بين الاقوامى معاملات كے حوالے سے مسلمان حكمرانوں كى حالت يه هے كه «كس نمى پرسد كه بھيا كيستى؟» يعنى عالمى معاملات ميں كوئى ان كى رائے لينا بھى گوارا نهيں كرتا۔ بلكه مسلمان ملكوں كى اپنى پاليسيوں كا اختيار بھى ان كے پاس نهيں۔ ان كے سالانه بجٹ بھى كهيں اور سے بن كر آتے هيں۔

          بهر حال اس آيت كے حكم كا مدعا يهى هے كه جسے الله كا «بنده» بننا هے اس كے ليے ضرورى هے كه وه اپنى پورى زندگى اس كے قانون كے تابع كركے اس كے حضور پيش هو۔ «قيصر كا حصه قيصر كو دو اور خدا كا حصه خدا كو دو» والا قانون الله تعالى كے هاں قابل قبول نهيں۔ چناں چه ايمان كے دعوے داروں كو چاهيے كه وه الله كى اطاعت كو خالص كرتے هوئے پورى يك سوئى كے ساتھ اس كى عبادت كريں۔

وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ: «اور (يه كه) نماز قائم كريں اور زكوة ادا كريں، اور يهى هے سيدھا (اور سچا) دين۔»

        گويا ان الفاظ سے يه بھى واضح هو گيا كه بندگى اور شے هے، جب كه نماز اور زكوة اس كے علاوه هے۔ اس نكتے كو يوں سمجھيں كه بندگى تو پورى زندگى الله تعالى كى اطاعت ميں دے دينے كا نام هے۔ بقول شيخ سعدى:

زندگى آمد برائے بندگى      زندگى بے بندگى شرمندگى!

        جب كه نماز، زكوة (عبادات) وغيره اس بندگى كے تقاضوں كو پورا كرنے كے لوازمات هيں، تاكه ان كے ذريعے سے بنده اپنے رب كو مسلسل ياد كرتا رهے اور اس كا تعلق اپنے رب كے ساتھ هر دم، هر گھڑى تازه رهے۔ حفيظ جالندھرى كے اس خوب صورت شعر ميں يهى فلسفه بيان هوا هے:

سركشى نے كر ديے دھندلے نقوشِ بندگى

آؤ سجدے ميں گريں لوحِ جبيں تازه كريں!

        گويا همارے «نقوشِ بندگى» نفس پرستى كى كثافتوں اور كدورتوں كے گرد وغبار سے اكثر دھندلا جاتے هيں۔ چناں چه انهيں تازه ركھنے كے ليے نماز، روزه، زكوة اور ديگر مراسمِ عبوديت كے ذريعے هميں الله تعالى كے حضور مسلسل حاضرى دينے كى ضرورت رهتى هے۔ جيسے ايك بنده مسلمان اپنى نماز پنج گانه كى هر ركعت ميں الله تعالى كے ساتھ اپنا يه عهد تازه  كرتا هے: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ كه اے الله! هم تيرى هى عبادت كرتے هيں (اور كرتے رهيں گے) اور تجھ سے هى مدد مانگتے هيں (اور مانگتے رهيں گے)۔ تصور كيجيے اگر ايك بنده الله تعالى كے سامنے كھڑے هو كر يه عهد پورے ارادے اور شعور كے ساتھ روزانه بار بار دهرائے گا تو اس سے اس كے تعلق مع الله كے چمن ميں ترو تازگى كى كيسى كيسى بهاروں كا سماں بندھا رهے گا۔

UP
X
<>