قرآن کریم > يوسف
يوسف
•
قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا لَكَ لاَ تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ
(چنانچہ) ان بھائیوں نے (اپنے والد سے) کہا کہ : ’’ ابا ! یہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر اطمینان نہیں کرتے ؟ حالانکہ اس میں کوئی شک نہ ہونا چاہیئے کہ ہم اُس کے پکے خیر خواہ ہیں
•
أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
کل آپ اُسے ہمارے ساتھ (تفریح کیلئے) بھیج دیجئے، تاکہ وہ کھائے، پیئے، اور کچھ کھیل کود لے۔ اور یقین رکھئے کہ ہم اُس کی پوری حفاظت کریں گے۔ ‘‘
•
قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُواْ بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ
یعقوب نے کہا : ’’ تم اُسے لے جاؤ گے تو مجھے (اُس کی جدا ئی کا) غم ہو گا، اور مجھے یہ اندیشہ بھی ہے کہ کسی وقت جب تم اُ س کی طرف سے غافل ہو، تو کوئی بھیڑیا اُسے کھاجائے۔ ‘‘
•
قَالُواْ لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَّخَاسِرُونَ
وہ بولے : ’’ ہم ایک مضبوط جتھے کی شکل میں ہیں ، اگر پھر بھی بھیڑیا اُسے کھا جائے تو ہم تو بالکل ہی گئے گذرے ہوئے ! ‘‘
•
فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ
پھر ہوا یہ کہ جب وہ اُ ن کو ساتھ لے گئے، اور انہوں نے یہ طے کر ہی رکھاتھا کہ اُنہیں ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں گے، (چنانچہ ڈال بھی دیا) تو ہم نے یوسف پر وحی بھیجی کہ (ایک وقت آئے گا جب) تم ان سب کو جتلاؤ گے کہ انہوں نے یہ کام کیا تھا، اور اُ س وقت اُنہیں پتہ بھی نہ ہوگا (کہ تم کون ہو ؟)
•
قَالُواْ يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لِّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ
کہنے لگے : ’’ ابا جی ! یقین جانئے، ہم دوڑنے کا مقابلہ کر نے چلے گئے تھے، اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا اُسے کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے، چاہے ہم کتنے ہی سچے ہوں ۔ ‘‘
•
وَجَآؤُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ
اور وہ یوسف کی قمیض پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کر لے آئے۔ اُن کے والد نے کہا : ’’ (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے دلوں نے اپنی طرف سے ایک بات بنالی ہے۔ اب تو میرے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ اور جو باتیں تم بنار ہے ہو، اُن پر اﷲ ہی کی مدد درکار ہے۔ ‘‘
•
وَجَاءتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُواْ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ قَالَ يَا بُشْرَى هَذَا غُلاَمٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور (دوسری طرف جس جگہ انہوں نے یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا، وہاں ) ایک قافلہ آیا۔ قافلے کے لوگوں نے ایک آدمی کو پانی لانے کیلئے بھیجا، اور اُس نے اپنا ڈول (کنویں میں ) ڈالا تو (وہاں یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر) پکار اُٹھا : ’’ لو خوشخبری سنو ! یہ تو ایک لڑکا ہے۔ ‘‘ اور قافلے والوں نے انہیں ایک تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا، اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، اﷲ کو اس کا پورا پورا علم تھا
•
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
اور (پھر) انہوں نے یوسف کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا جو گنتی کے چند درہموں کی شکل میں تھی، اور اُن کو یوسف سے کوئی دلچسپی نہیں تھی