قرآن کریم > سبإ
سبإ
•
أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
کہ : ’’ پوری پوری زرہیں بناؤ، اور کڑیاں جوڑنے میں توازن سے کام لو، اور تم سب لوگ نیک عمل کرو۔ تم جو عمل بھی کرتے ہو، میں اُسے دیکھ رہا ہوں ۔‘‘
•
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ
اور سلیمان کیلئے ہم نے ہوا کو تابع بنادیا تھا۔ اُس کا صبح کا سفر بھی ایک مہینے کی مسافت کا ہوتا تھا، اور شام کا سفر بھی ایک مہینے کا۔ اور ہم نے اُن کیلئے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا۔ اور جنا ت میں سے کچھ وہ تھے جو اپنے پروردگار کے حکم سے اُن کے آگے کام کرتے تھے، اور (ہم نے اُن پر یہ بات واضح کرد ی تھی کہ) اُن میں سے جو کوئی ہمارے حکم سے ہٹ کر ٹیڑھا راستہ اختیار کرے گا، اُسے ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں گے
•
يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاء مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
وہ جنات سلیمان کیلئے جو وہ چاہتے بنا دیا کرتے تھے ؛ اُونچی اُونچی عمارتیں ، تصویریں ، حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور زمین میں جمی ہوئی دیگیں ! : ’’ اے داود کے خاندان والو ! تم ایسے عمل کیا کرو جن سے شکر ظاہر ہو۔ اور میرے بندوں میں کم لوگ ہیں جو شکر گذار ہوں ۔‘‘
•
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلاَّ دَابَّةُ الأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو اُن کی موت کا پتہ کسی اور نے نہیں ، بلکہ زمین کے کیڑے نے دیا جو اُن کے عصا کر کھا رہا تھا۔ چنانچہ جب وہ گر پڑے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کا علم جانتے ہوتے تو اس ذلت والی تکلیف میں مبتلا نہ رہتے
•
لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
حقیقت یہ ہے کہ قومِ سبأ کیلئے خود اُس جگہ ایک نشانی موجود تھی جہاں وہ رہا کرتے تھے، دائیں اور بائیں دونوں طرف باغوں کے دو سلسلے تھے ! : ’’ اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق کھاؤ، اور اُس کا شکر بجالاؤ۔ ایک تو شہر بہترین، دُوسرے پروردگار بخشنے والا !‘‘
•
فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَى أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ
پھر بھی اُنہوں نے (ہدایت سے) منہ موڑلیا، اس لئے ہم نے اُن پر بند والا سیلاب چھوڑ دیا، اور اُن کے دونوں طرف کے باغوں کو ایسے دو باغوں میں تبدیل کر دیا جو بدمزہ پھلوں ، جھاؤ کے درختوں اور تھوڑی سی بیریوں پر مشتمل تھے
•
ذَلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلاَّ الْكَفُورَ
یہ سزا ہم نے اُن کو اس لئے دی کہ اُنہوں نے ناشکری کی رَوِش اختیار کی تھی، اور ایسی سزا ہم کسی اور کو نہیں ، بڑے بڑے ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں
•
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ
اور ہم نے اُن کے اور اُن بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دُور سے نظر آتی تھیں ، اور اُن میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا (اور کہا تھا کہ) ’’ ان (بستیوں ) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔‘‘
•
فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اس پر وہ کہنے لگے کہ : ’’ ہمارے پروردگار ! ہمارے سفر کی منزلوں کے درمیان دور دور کے فاصلے پیدا کردے‘‘ اور یوں اُنہوں نے اپنی جانوں پر ستم ڈھایا، جس کے نتیجے میں ہم نے اُنہیں افسانہ ہی افسانہ بنادیا، اور اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بالکل تتر بتر کر دیا۔ یقینا اس واقعے میں ہر اُس شخص کیلئے بڑی نشانیاں ہیں جو صبر وشکر کا خوگر ہو
•
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلاَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور واقعی ان لوگوں کے بارے میں اِبلیس نے اپنا خیال درست پایا، چنانچہ یہ اُسی کے پیچھے چل پڑے، سوائے اُس گروہ کے جو مومن تھا