فہرست مضامین > عقائد > ابواب الرسالت > حضورِ انور صلى الله عليه وسلم كے اوصاف حميده
حضورِ انور صلى الله عليه وسلم كے اوصاف حميده
پارہ
سورۃ
آیت
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
آیت ۱۲۸: لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ: ‘‘(اے لوگو دیکھو!) آ چکا ہے تمہار ے پاس تم ہی میں سے ایک رسول‘ بہت بھاری گزرتی ہے آپ پر تمہاری تکلیف‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شے جو تمہیں مصیبت اور ہلاکت سے دوچار کرنے والی ہو وہ ان کے دل پر نہایت شاق ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم تمہیں دنیا اور آخرت دونوں کی ہلاکتوں اور مصیبتوں سے محفوظ اور دونوں کی سعادتوں سے بہرہ مند دیکھنا چاہتے ہیں۔
حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ: ‘‘تمہارے حق میں آپ صلى الله عليه وسلم (بھلائی کے) بہت حریص ہیں‘ اہل ایمان کے لیے شفیق بھی ہیں‘ رحیم بھی۔‘‘
آپ کی شدید خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام خیر‘ ساری خوبیاں اور ساری بھلائیاں تم لوگوں کو عطا فرما دے۔
(لوگو !) تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہی میں سے ہے، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمہاری بھلائی دُھن لگی ہوئی ہے، جومومنوں کیلئے انتہائی شفیق، نہایت مہربان ہے !
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ
آیت ۱۰۷: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ: «اور (اے نبی!) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔»
یعنی آپ کی بعثت صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزیرۂ نمائے عرب میں اسلام کے عملی طور پر غلبے کے بعد آپ کی بعثت کا مقصد پورا ہو چکا ہوتا، مگر آپ تو تمام اہل ِعالم کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ کی بعثت کا مقصد قرآن میں تین مقامات ( التوبہ: ۳۳، الفتح: ۲۸ اور الصف: ۹) پر ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ: «وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تا کہ اسے غالب کر دے تمام ادیان پر»۔ گویا آپ کی بعثت کا مقصد تب پورا ہو گا جب دین اسلام کل روئے زمین پر غالب ہو جائے گا۔ اسی مضمون کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!
نور توحید کا اتمام یعنی اسلام کا بطور دین کلی غلبہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک تو حضور کی حیات مبارکہ میں ہی ہو گیا تھا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام کے اس اقتدار کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ بڑی شد و مد سے شروع ہوا مگر دورِ عثمانی میں ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے سازش کے ذریعے عالم اسلام میں «الفتنۃ الکبرٰی» کھڑا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں حضرت عثمان شہید کر دیے گئے اور پھر مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے ہلاک ہو گئے۔ اس فتنہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ نہ صرف غلبہ اسلام کی مزید تصدیر و توسیع کا عمل رک گیا، بلکہ بعض علاقوں سے مسلمانوں کو پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی۔ حضور کی بعثت چونکہ تا قیامِ قیامت کل روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اور آپ کی بعثت کا مقصد «اِظہار دین الحق»(دین حق کا غلبہ) ہے، اس لیے یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک آپ کی بعثت کا یہ مقصد بہ تمام و کمال پورا نہ ہو اور دین اسلام کل عالم ِانسانی پر غالب نہ ہو جائے۔ اس کا صغریٰ و کبریٰ قرآن سے ثابت ہے اور اس کی تفصیلات کتب ِاحادیث میں موجود ہیں۔
اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کیلئے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
آیت ۴۵ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا:’’اے نبیؐ !یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔‘‘
اس آیت کے الفاظ نبوت اور رسالت کے درمیان ربط و تعلق کو بھی واضح کر رہے ہیں۔ نبوت اور رسالت کے تعلق یا فرق کو کسی شخص کے کسی محکمے کے لیے منتخب ہونے اور پھر اس محکمے کے اندر کسی مخصوص منصب پر اس کے ’’تقرر‘‘ کی مثال سے سمجھنا چاہیے۔ مثلاً جولوگ مقابلے کے امتحان میں کامیاب قرار پاتے ہیں وہ سی ایس پی کیڈر(cadre) کے لیے منتخب ہو جاتے ہیں۔ لیکن محض اس کیڈر میں منتخب ہوجانے سے ان میں سے کسی کو نہ تو کوئی اختیار ملتا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب ان میں سے کسی کا کسی منصب یا عہدے پر تقرر کر دیا جاتا ہے، مثلاً کسی جگہ ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے تعینات کر دیا جاتا ہے، تو اس منصب کے اختیارات بھی اسے حاصل ہو جاتے ہیں اور اس سے متعلقہ ذمہ داریاں بھی اس کے کندھوں پر آ جاتی ہیں۔ اس مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ نبوت ایک ’’کیڈر‘‘ ہے، جبکہ رسالت ایک خصوصی’’تقرر‘‘ ۔ یعنی نسل ِانسانی میں سے جو لوگ نبوت کے لیے منتخب ہوئے وہ سب انبیاء قرار پائے۔ لیکن جب ان میں سے کسی نبی کو کسی خاص قوم کی طرف بھیجا گیا تو انہیں رسالت مل گئی اور اس ’’تقرر‘‘ کے بعد وہ رسو ل بن گئے۔
اسی اصول کے تحت حضور کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپؐ کی نبوت کا ظہور پہلی وحی کے ساتھ ہوا، جبکہ آپؐ کی رسالت کا آغاز اس وقت ہوا جب آپؐ کو باقاعدہ تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پہلی وحی ان آیات پر مشتمل تھی: (اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ) ’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پید اکیا۔ اس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھئے اور آپؐ کا رب بہت کریم ہے۔ وہ ذات جس نے (علم) سکھایا قلم کے ذریعے۔ اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
ان پانچ آیات کے اندر نہ تو آپؐ کو تبلیغ کا کوئی حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اورذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس لیے بجا طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ اس وحی کے ذریعے صرف آپؐ کی نبوت کا ظہور ہوا تھا، جبکہ آپؐ کی رسالت کا آغاز اس وحی سے ہوا: (یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ) (المدثر) ’’اے چادر میں لپٹنے والے! اٹھئے اور خبردار کیجیے، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے‘‘۔ ان آیات میں گویا آپؐ کو لوگوں تک پیغام پہنچانے کا واضح حکم دے کر باقاعدہ ’’رسالت‘‘ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ چنانچہ زیر مطالعہ آیت میں حضور کو ’’نبی‘‘ کی حیثیت سے مخاطب کر کے منصب ِرسالت عطا کرنے کے ذکر (یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ) سے جہاں نبوت اور رسالت کا فرق واضح ہو جاتاہے وہاں اس نکتے کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ پہلے آپؐ کو نبوت عطا ہوئی اور بعد میں رسالت۔
آیت میں رسالت کے حوالے سے حضور کی جن تین ذمہ داریوں (شہادت علی الناس، تبشیراور انذار) کا ذکر کیا گیاہے ان کی وضاحت قرآن کی بہت سی دوسری آیات میں بھی ملتی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۴۳ میں آپؐ کی ’’شہادت‘‘ کی ذمہ داری کے حوالے سے یوں فرمایا گیا: (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا) ’’اور(اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘ ۔ سورۃ الحج کی آخری آیت میں بھی یہ مضمون ان ہی الفاظ میں آیا ہے، البتہ الفاظ کی ترتیب ذرا مختلف ہے: (لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ: ’’تا کہ پیغمبر تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔‘‘ اسی طرح تبشیر اور انذار کے حوالے سے بھی قرآن میں بہت سی آیات آئی ہیں، صیغہ واحد میں بھی اور جمع کے صیغہ میں بھی۔
اے نبی ! بیشک ہم نے تمہیں ایسا بنا کربھیجا ہے کہ تم گواہی دینے والے، خوشخبری سنانے والے اور خبر دار کرنے والے ہو
وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا
آیت ۴۶ وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا: ’’اوراللہ کی طرف بلانے والا اُس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ بنا کر۔‘‘
یہاں پر بِـاِذْنِہٖ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے ’’مامور من اللہ‘‘ ہو کر آتا ہے۔ ویسے تو اللہ کا جو بندہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے وہ داعی الی اللہ ہے، لیکن ایک عام داعی اور ایک رسول کی دعوت میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق اس مثال سے سمجھئے کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ہر شہری کا فرض ہے۔ یہ گویا اصولِ شہریت ہے اورعام طور پر گلی محلے میں ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کی جاتی ہے، اجتماعی طور پر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ماحول صاف رہے اور آلودگی نہ پھیلے، اور اس کوشش کے اثرات معاشرے کے اندر کسی نہ کسی حد تک نظر بھی آتے ہیں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کا مقابلہ یا موازنہ اس محکمے کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جسے حکومت کی طرف سے خصوصی اختیارات کے ساتھ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہو، اس محکمے کے چھوٹے بڑے کارندے اسی کام پر مامور ہوں اور اسی کام کی تنخواہ لیتے ہوں۔ اسی طرح سے ملک کے دفاع کی مثال لی جا سکتی ہے۔ ہر شہر ی کا فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود کو دفاعِ وطن کے لیے تیار رکھے، لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے جب باقاعدہ ایک فوج تیار کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے زیر مطالعہ آیت میں بِاِذْنِہٖ کے لفظ سے رسالت کے فرضِ منصبی کی اہمیت کو خصوصی طور پر اجاگر کیاگیا ہے کہ اے نبی آپ کوئی عام داعی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کام کے لیے خصوصی طور پر مامور کر کے بھیجا ہے۔
اور اﷲ کے حکم سے لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانے والے، اور روشنی پھیلانے والے چراغ ہو
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ
آیت ۲۸ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا: ’’اور (اے نبی !) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام بنی نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘
تمام انبیاء و رسل میں یہ اعزاز صرف محمد ٌرسول اللہ کے حصے میں آیا کہ آپؐ کو تمام بنی نوع انسانی کی طرف رسولؐ بنا کر بھیجا گیا۔ اس سلسلے میں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کیجئے کہ یہ فیصلہ تاریخ انسانی کے اس مرحلے پر کیا گیا جب انسانی تمدن اور ذرائع رسل و رسائل کی ترقی کے باعث آپ کی دعوت کو دنیا کے کونے کونے میں ایک ایک شخص تک پہنچانا عملی طور پر ممکن ہونے کے قریب تھا۔ ورنہ اس سے پہلے عملی طور پر کسی نبی یا رسول کی دعوت کو پوری نوعِ انسانی تک پہنچانا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آئے وہ مخصوص علاقوں میں ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہو کر آئے۔ اسی لیے آپؐ سے پہلے کے پیغمبروں کی بعثت کا تعارف قرآن حکیم میں اس طرح کرایا گیا ہے: (وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا) (ھود: ۵۰) وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا) (ھود:۶۱)، (وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا) (ھود: ۸۴)۔ لیکن حضور کی بعثت کے بارے میں یہاں یوں فرمایا گیا: (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا)۔
وَّلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ: ’’لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کیلئے ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے، اور خبردار بھی کرے، لیکن اکثر لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں