فہرست مضامین > عقائد > ابواب الرسالت > حضورِ انور صلى الله عليه وسلم شمعِ توحيد پر قربان هونے والے مجاهدوں كے قائدِ اعظم هيں
حضورِ انور صلى الله عليه وسلم شمعِ توحيد پر قربان هونے والے مجاهدوں كے قائدِ اعظم هيں
پارہ
سورۃ
آیت
وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
یہاں سے سوره آل عمران کے نصف ِثانی کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے ‘ جو چھ رکوعات پر محیط ہے۔ یہ چھ رکوع مسلسل غزوه اُحد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرے پر مشتمل ہیں۔ غزوئہ اُحد شوال 3ھ میں پیش آیا تھا۔ اس سے پہلے رمضان ۲ھ میں غزوئہ بدر پیش آچکا تھا‘ جس کا تذکرہ ہم سورۃ الانفال میں پڑھیں گے۔ اس لیے کہ ترتیب مصحف نہ تو ترتیب زمانی کے اعتبار سے ہے اور نہ ہی ترتیب ِنزولی کے مطابق۔ غزوئہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت زبردست فتح دی تھی اور کفارِ مکہ کو بڑی زَک پہنچی تھی۔ ان کے ستر (70) سربرآوردہ لوگ مارے گئے تھے‘ جن میں قریش کے تقریباً سارے بڑے بڑے سردار بھی شامل تھے۔ اہل مکہ کے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور ان کے انتقامی جذبات لاوے کی طرح کھول رہے تھے۔ چنانچہ ایک سال کے اندر اندر انہوں نے پوری تیاری کی اور تمام ساز و سامان جو وہ جمع کر سکتے تھے جمع کر لیا۔ ابوجہل غزوئہ بدر میں مارا جا چکا تھا اور اب قریش کے سب سے بڑے سردار ابوسفیان تھے۔ (ابو سفیان چونکہ بعد میں ایمان لے آئے تھے اور صحابیت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے تھے لہٰذا ہم ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔) ابو سفیان تین ہزار جنگجوئوں کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے ۔ اہل مکہ اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے اس دفعہ اپنے بچوں اور خاص طور پر خواتین کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے تاکہ ان کی غیرت بیدار رہے کہ اگر کہیں میدان سے ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہماری عورتیں مسلمانوںکے قبضے میں چلی جائیں گی۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ بھی لشکر کے ہمراہ تھی۔ (وہ بھی بعد میں فتح مکہ کے موقع پر ایمان لے آئی تھیں۔) غزوئہ بدر میں ہندہ کا باپ‘ بھائی اور چچا مسلمانوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہو چکے تھے‘ لہٰذا اس کے سینے کے اندر بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ مکہ کا شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جس کا کوئی فرد غزوئہ بدر میں مارا نہ گیا ہو ۔
اس موقع پر نبی اکرم نے مدینہ منورہ میں ایک مشاورت منعقد فرمائی کہ اب کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے‘جبکہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کرنے آ رہا ہے۔ رسول اللہ کا اپنا رجحان اس طرف تھا کہ اس صورت حال میں ہم اگر مدینہ میں محصور ہو کر مقابلہ کریں تو بہتر رہے گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی بھی یہی رائے تھی ۔ لیکن وہ لوگ جو بدر کے بعد ایمان لائے تھے اور وہ جو غزوئہ بدر میں شریک نہیں ہوپائے تھے ان میں سے خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے خصوصی جوش و خروش کا مظاہرہ ہو رہا تھا کہ ہمیں میدان میں نکل کر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے‘ ہمیں تو شہادت درکار ہے‘ ہمیں آخر مو ت سے کیا ڈر ہے؟
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی!
چنانچہ رسول اللہ نے اُن کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے فیصلہ فرما دیا کہ دشمن کا کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے گا۔ نبی اکرم نے ایک ہزار کی نفری لے کر مدینہ سے جبل اُحد کی جانب کوچ فرمایا‘ لیکن راستے ہی میں عبداللہ بن اُبی اپنے تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ جب ہمارے مشورے پر عمل نہیں ہوتا اور ہماری بات نہیں مانی جاتی تو ہم خواہ مخواہ اپنی جانیں جوکھوں میں کیوں ڈالیں؟ تین سو منافقین کے چلے جانے کے بعد اسلامی لشکر میں صرف سات سو افراد باقی رہ گئے تھے‘ جن میں کمزور ایمان والے بھی تھے۔ چنانچہ دامن اُحد میں پہنچ کر مدینہ کے دو خاندانوں بنو حارثہ اور بنوسلمہ کے قدم بھی تھوڑی دیر کے لیے ڈگمگائے اور انہوںنے واپس لوٹنا چاہا‘ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو حوصلہ دیا اور ان کے قدم جما دیے۔
اس کے بعد جنگ ہوئی تو اللہ کی طرف سے مدد آئی۔ اللہ نے لشکر اسلام کو فتح دے دی اور مشرکین کے قدم اکھڑ گئے۔ نبی اکرم نے اُحد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھا تھا اور اس کے دامن میں صف بندی کی تھی۔ سامنے دشمن کا لشکر تھا۔ پہاڑ میں ایک درّہ تھا اور حضور کو اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ وہاں سے ہم پر حملہ ہو جائے اور ہم دو طرف سے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں۔ لہٰذا آپ نے اس درّہ پر حضرت عبداللہ بن جبیر کی امارت میں پچاس تیر انداز تعینات فرما دیے تھے اور انہیں تاکید فرمائی تھی یہاں سے مت ہلنا۔ چاہے تم دیکھو کہ ہم سب مارے گئے ہیں اور ہمار اگوشت چیلیں اور کوّے نوچ رہے ہیں تب بھی یہ جگہ مت چھوڑنا! لیکن جب مسلمانوں کو فتح ہو گئی تو درّے پر مامور حضرات میں اختلاف ِرائے ہو گیا۔ ان میں سے اکثر نے کہا کہ رسول اللہ نے ہمیں جو اتنی تاکید فرمائی تھی وہ تو شکست کی صورت میں تھی‘ اب تو فتح ہو گئی ہے‘ لہٰذا اب ہمیں بھی چل کر مالِ غنیمت جمع کرنے میں باقی سب لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر وہاں کے لوکل کمانڈر تھے‘ وہ انہیں منع کرتے رہے کہ یہاں سے ہرگز مت ہٹو‘ رسول اللہ کا حکم یاد رکھو۔ لیکن وہ توحضور کے حکم کی تاویل کر چکے تھے۔ ان میں سے 35 افراد درّہ چھوڑ کر چلے گئے اور صرف 15 باقی رہ گئے۔
خالد بن ولید (جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے) مشرکین کی گھڑ سوار فوج (cavalry) کے کمانڈر تھے۔ ان کی عقابی نگاہ نے دیکھ لیا کہ وہ درہ خالی ہے۔ ان کی پیدل فوج (infantry) شکست کھا چکی تھی اور بھگدڑ مچ چکی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے دو سو گھڑ سواروں کے دستے کے ساتھ اُحد کا چکر کاٹ کر پشت سے اس درے کے راستے مسلمانوں پر حملہ آور ہو گئے۔ درّے پر صرف پندرہ تیر انداز باقی تھے‘ ان کے لیے دو سو گھڑ سواروں کی یلغار کو روکنا ممکن نہیں تھا اور وہ مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس اچانک حملے سے یکلخت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی ۔ ستر صحابہ کرام شہید ہو گئے۔ رسول اللہ خود بھی زخمی ہو گئے۔ َخود کی کڑیاں آپ کے رخسار میں گھس گئیں اور دندانِ مبارک شہید ہو گئے ۔ خون اتنا بہا کہ آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی ‘ اور یہ بھی مشہور ہو گیا کہ حضور کا انتقال ہو گیا ہے۔اس سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے ۔ لیکن پھر جب رسول اللہ نے لوگوں کو پکارا تو لوگ ہمت کر کے جمع ہوئے۔ تب آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت پہاڑ پر چڑھ کر بچائو کر لیا جائے ‘اور آپ تمام مسلمانوں کو لے کر کوہِ اُحد پر چڑھ گئے ۔ اس موقع پر ابوسفیان اور خالد بن ولید کے مابین اختلافِ رائے ہو گیا۔ خالد بن ولید کا کہنا تھا کہ ہمیں ان کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا چاہیے اور انہیںختم کر کے ہی دم لینا چاہیے۔ لیکن ابوسفیان بڑے حقیقت پسند اور زیرک شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں‘ مسلمان اونچائی پر ہیں ‘ وہ اوپر سے پتھر پھینکیں گے اور تیر برسائیں گے تو ہمارے لیے شدید جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے‘ یہی بہت ہے۔ چنانچہ مشرکین وہاں سے چلے گئے۔ مطالعۂ آیات سے قبل غزوئہ احد کے سلسلۂ واقعات کا یہ اجمالی خاکہ ذہن میں رہنا چاہیے۔
آیت 121: وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَـوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ: ’’اور (اے نبی !) یاد کیجیے جبکہ صبح کو آپ اپنے گھر سے نکلے تھے اور مسلمانوں کو جنگ کے مورچوں میں مامور کر رہے تھے۔‘‘
غزوہ اُحد کی صبح آپ حضرت عائشہ کے حجرے سے برآمد ہوئے تھے اور جنگ کے میدان میں صف بندی کر رہے تھے‘ وہاں مورچے معین کر رہے تھے اور ان میں صحابہ کرام کو مامور کر رہے تھے۔
وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ: ’’جبکہ اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
(اے پیغمبر ! جنگِ احد کو وہ وقت یاد کرو) جب تم صبح کے وقت اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو جنگ کے ٹھکانوں پر جمارہے تھے، اور اﷲ سب کچھ سننے جاننے والا ہے ۔
فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلاً
آیت 84: فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : ’’پس (اے نبی!) آپ جنگ کریں اللہ کی راہ میں!‘‘
قتال کے ضمن میں یہ قرآن مجید کی غالباً سخت ترین آیت یہ ہے‘ لیکن اس میںسختی لفظی نہیں‘ معنوی ہے۔
لاَ تُـکَلَّفُ اِلاَّ نَفْسَکَ:’’آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے سوائے اپنی ذات کے‘‘
وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ: ’’البتہ اہل ایمان کو آپ اس کے لیے اُکسائیں۔‘‘
آپ اہل ایمان کو قتال فی سبیل اللہ کے لیے جس قدر ترغیب و تشویق دے سکتے ہیں دیجیے۔ انہیں اس کے لیے جوش دلایے‘ ابھاریے۔ لیکن اگر کوئی اور نہیں نکلتا تو اکیلے نکلئے جیسے حضرت ابو بکر کا قول بھی نقل ہوا ہے جب ان سے کہا گیا کہ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں نرمی کیجیے تو آپ نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا تو میں اکیلا جاؤں گا‘ عزیمت کا یہ عالم ہے! تو اے نبی آپ کو تو یہ کام کرنا ہے‘ آپ کا تو یہ فرضِ منصبی ہے۔ آپ کو ہم نے بھیجا ہی اس لیے ہے کہ روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کر دیں۔
عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّــکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا: ’’بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کافروں کی قوت کو روک دے۔‘‘
کفار و مشرکین کی جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ بڑی چلت پھرت ہو رہی ہے‘ یہ تو کچھ عرصے کی بات ہے وہ وقت بس آیا چاہتا ہے کہ ان میں دم نہیں رہے گا کہ آپ کا مقابلہ کریں۔ اور وہ وقت جلد ہی آ گیا کہ مشرکین کی کمر ٹوٹ گئی۔ سورۃ النساء کی یہ آیت ۴ہجری میں نازل ہوئی اور ۵ہجری میں غزوئہ احزاب پیش آیا۔ جس کے بعد محمد رسول اللہ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ «لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھذا ولکنکم تغزونھم» ’’اس سال کے بعد قریش تم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کریں گے‘ بلکہ اب تم ان پر حملہ آور ہو گے۔‘‘ غزوہ احزاب کے فوراً بعد سورۃ الصف نازل ہوئی۔ جس میں اہل ایمان کو فتح و نصرت کی بشارت دی گئی۔ وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَـھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. اس سے اگلے سال 6 ہجری میں آپ نے عمرے کا سفر کیا‘جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ ہو گئی‘ جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ اس کے بعد ساتویں سال اللہ تعالیٰ نے فتح خیبر عطا فرما دی اور آٹھویں سال میں مکہ فتح ہو گیا۔ اس طرح ایک کے بعد ایک‘ سارے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔
وَاللّٰہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلاً: ’’اور یقینا اللہ تعالیٰ بہت شدید ہے قوت میں بھی اور سزا دینے میں بھی۔‘‘
لہٰذا (اے پیغمبر !) تم اﷲ کے راستے میں جنگ کرو۔ تم پر اپنے سواکسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو۔ کچھ بعید نہیں کہ اﷲ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے۔ اور اﷲ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت
فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
آیت 57: فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِی الْْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ: ’’تو اگر آپ انہیں جنگ میں پا جائیں تو ان کو ایسی سزا دیں کہ جو ان کے پیچھے ہیں ان کو بھی خوف زدہ کر دیں‘ تاکہ وہ عبرت حاصل کریں۔‘‘
یہ یہودی آپ لوگوں کے خلاف کفار مکہ کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر سازشیں تو ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں‘ لیکن اگر ان میں سے کچھ لوگ میدانِ جنگ میں بھی پکڑے جائیں کہ وہ قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں ان کو ایسی عبرت ناک سزا دو کہ قریش مکہ جو پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریں ہلا رہے ہیں اور اِن سازشوں کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں اُن کے ہوش بھی ٹھکانے آ جائیں۔
لہٰذا اگر کبھی یہ لوگ جنگ میں تمہارے ہاتھ لگ جائیں ، تو ان کو سامانِ عبرت بنا کر اُن لوگوں کو بھی تتر بتر کر ڈالو جو ان کے پیچھے ہیں ، تاکہ وہ یاد رکھیں
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ
آیت 65: یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ: ’’اے نبی ترغیب دلائیے اہل ایمان کو قتال کی۔‘‘
ہجرت کے بعد 9 سال تک قتال کے لیے ترغیب‘ تشویق اور تحریص کے ذریعے ہی زور دیا گیا۔ یہ تحریص گاڑھی ہو کر ’’تحریض‘‘ بن گئی۔ اس دور میں مجاہدین کی فضیلت بیان کی گئی‘ اِن سے بلند درجات کا وعدہ کیا گیا (النساء: 95) مگر قتال کو ہر ایک کے لیے فرضِ عین قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن 9 ہجری میں غزوۂ تبوک کے موقع پر جہاد کے لیے نکلنا تمام اہل ایمان پر فرض کر دیا گیا۔ اس وقت تمام اہل ایمان کے لیے نفیر عام تھی اور کسی کو بلا عذر پیچھے رہنے کی اجازت نہیں تھی۔
اِنْ یَّـکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ: ’’اگر تم میں سے بیس افراد ہوں گے صبرکرنے والے (ثابت قدم) تو وہ دوسو افراد پر غالب آ جائیں گے‘‘
وَاِنْ یَّــکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا: ’’اور اگر ہوں گے تم میں سے سو افراد تو وہ غالب آ جائیں گے کفار کے ایک ہزار افراد پر‘‘
بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ: ’’یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘
یہاں سمجھ نہ رکھنے سے مراد یہ ہے کہ انہیں اپنے موقف کی سچائی کا یقین نہیں ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جسے اپنے نظریے اور موقف کی حقانیت پر پختہ یقین ہے‘ اس کا ایمان ہے کہ وہ حق پر ہے اور حق کے لیے لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو نظریاتی طور پر ڈانواں ڈول ہے‘ کسی کا تنخواہ یافتہ ہے یاکسی کے حکم پر مجبور ہو کر لڑ رہا ہے۔ اب ان دونوں اشخاص کی کارکردگی میں زمین و آسمان کا فرق ہو گا۔ چنانچہ کفار کو جنگ میں ثابت قدمی اور استقلال کی وہ کیفیت حاصل ہو ہی نہیں سکتی جو نظریے کی سچائی پر جان قربان کرنے کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے۔ دونوں اطراف کے افراد کی نظریاتی کیفیت کے اسی فرق کی بنیاد پر کفار کے ایک سو افراد پر دس مسلمانوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس کے بعد والی آیت اگرچہ زمانی لحاظ سے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی مگر مضمون کے تسلسل کے باعث یہاں شامل کر دی گئی ہے۔
اے نبی ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگرتمہارے بیس آدمی ایسے ہوں جو ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دوسو پر غالب آ جائیں گے۔اور اگر تمہارے سو آدمی ہوں گے تو وہ کافروں کے ایک ہزار پر غالب آجائیں گے، کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے