آیت ۸۹: وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا عَلَیْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِم: «اور (ذرا تصور کرو اُس دن کا) جس دن ہم ہر اُمت میں کھڑا کریں گے ایک گواہ ان پر ان ہی میں سے»
یہ وہی الفاظ ہیں جو ہم آیت: ۸۴ میں پڑھ آئے ہیں۔ قیامت کے دن تمام رسول اپنی اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ سورۃ الاحزاب میں محمد رسول اللہ کے بارے میں اس حوالے سے فرمایا گیا: یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا: «اے نبی! یقینا ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا، خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر، اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ»۔ اسی طرح سورۃ المزمل میں حضور کے بارے میں فرمایا: اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا: «یقینا ہم نے بھیجا ہے تمہاری طرف ایک رسول، گواہی دینے والا تم پر جیسے ہم نے بھیجا تھا فرعون کی طرف ایک رسول۔»
وَجِئْنَا بِکَ شَہِیْدًا عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ: «اور آپ کو کھڑا کریں گے گواہ (بنا کر) ان کے خلاف۔»
قبل ازیں ہم سورۃ النساء میں بھی اس سے ملتی جلتی یہ آیت پڑھ چکے ہیں: فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا: « پھر کیا حال ہو گا جب ہم لائیں گے ہر اُمت میں سے ایک گواہ اور آپ کو لائیں گے ان پر گواہ»۔ یہاں ہٰٓؤُلَآءِ کے لفظ میں قریش مکہ کی طرف اشارہ ہے جن تک حضور نے براہِ راست اللہ کی دعوت پہنچا دی تھی۔ لہٰذا قیامت کے دن آپ ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ اے اللہ میں نے آپ کا پیغام بے کم وکاست ان تک پہنچا دیا تھا اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ میں نے اس ضمن میں برس ہا برس تک ان کے درمیان ہر طرح کی مشقت اٹھائی۔ انہیں تنہائی میں فرداً فرداً بھی ملا اور علی الاعلان اجتماعی طور پر بھی اُن سے مخاطب ہوا۔ میں نے اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔
رسول اللہ نے اللہ کا یہ پیغام اہل عرب تک براہِ راست پہنچا دیا اور باقی دنیا تک قیامت تک کے لیے یہ پیغام پہنچانے کی ذمہ داری آپ نے امت کو منتقل فرما دی۔ اب اگر اُمت اس فرض میں کوتاہی کرے گی تو لوگوں کی گمراہی کا وبال افرادِ امت پر آئے گا۔ چنانچہ یہ بہت بھاری اور نازک ذمہ داری ہے جو اُمت مسلمہ کے افراد ہونے کے سبب ہمارے کندھوں پر آ پڑی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۴۳ میں اُمت ِمسلمہ کی اس ذمہ داری کا ذکر تحویل قبلہ کے ذکر کے فوراً بعد اس طرح فرمایا گیا: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا: «اسی طرح ہم نے تمہیں ایک اُمت وسط بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنواور رسول تم پر گواہ بنے»۔ اس بھاری ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران بہت مشکل اور جان گسل مراحل کا آنا نا گزیر ہے۔ اس طرح کے مشکل مراحل سے گزرنے کا طریقہ سورۃ البقرۃ ہی میں آگے چل کر اس طرح واضح کیا گیا: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: « اے ِاہل ایمان تم مد د طلب کرو نماز اور صبر کے ساتھ، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے»۔ اور پھر اس راہ میں جان کی بازی لگانے والے خوش نصیب اہل ایمان کی دلجوئی اس طرح فرمائی گئی: وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ: «اور مت کہو انہیں مردہ جو اللہ کے رستے میں قتل کر دیے جائیں، بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔»
وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ: «اور (اے نبی!) ہم نے اُتار دی ہے آپ پر یہ کتاب وضاحت کرتی ہوئی ہر شے کی، اور یہ ہدایت، رحمت اور بشارت (بن کر آئی) ہے مسلمانوں کے لیے۔»
یعنی حیاتِ انسانی کے تمام مسائل کا حل قرآن میں موجود ہے۔ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے جو مسلم یعنی اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔