آیت 143: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا : اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے،
اب یہ خاص بات کہی جا رہی ہے کہ اے مسلمانو! تم اس تحویل قبلہ کو معمولی بات نہ سمجھو، یہ علامت ہے اس بات کی کہ اب تمہیں وہ حیثیت حاصل ہو گئی ہے :
لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا: تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اب یہ تمہارا فرضِ منصبی ہے کہ رسول نے جس دین کی گواہی تم پر اپنے قول و عمل سے دی ہے اُسی دین کی گواہی تمہیں اپنے قول اور عمل سے پوری نوعِ انسانی پر دینی ہے۔ اب تم ٌمحمد رسول اللہ اور نوعِ انسانی کے درمیان واسطہ (link)بن گئے ہو۔ اب تک نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک نبی کی تعلیم ختم ہو جاتی یا اس میں تحریف ہو جاتی تو دوسرا نبی آ جاتا۔ اس طرح پے در پے انبیاء و رُسل چلے آ رہے تھے اور ہر دَور میں یہ معاملہ تسلسل کے ساتھ چل رہا تھا۔ اب ٌمحمد رسول اللہ پر نبوت ختم ہو رہی ہے، لیکن نسل ِانسانی کا سلسلہ تو قیامت تک جاری رہنا ہے۔ لہٰذا اب آگے لوگوں کو تبلیغ کرنا، ان تک دین پہنچانا، ان پر حجت قائم کرنا اور شہادت علی الناس کا فریضہ سر انجام دینا کس کی ّذمہ داری ہوگی؟ پہلے تو ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ اللہ کی طرف سے جبرائیل وحی لائے اور نبی کے پاس آ گئے، نبی نے لوگوں کو سکھا دیا۔ اب یہ معاملہ اس طرح ہے کہ اللہ سے جبرائیل وحی لائے ٌمحمد رسول اللہ کے پاس اور محمد نے سکھایا تمہیں، اور اب تمہیں سکھانا ہے پوری نوعِ انسانی کو! تو اب تمہاری حیثیت درمیانی واسطے کی ہے۔ یہ مضمون سورۃ الحج کی آخری آیات میں زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔
وَکَذٰلِکَ (اسی طرح) سے مراد یہ ہے کہ تحویل قبلہ اس کا ایک مظہر ہے۔ اس سے اب تم اپنی ذمہ ّداریوں کا اندازہ کرو۔ صرف خوشیاں نہ مناؤ ، بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری کا جو بوجھ تم پر آ گیا ہے اس کا ادراک کرو۔ یہی بوجھ جب ہم نے اپنے بندے محمد کے کاندھوں پر رکھا تھا تو ان سے بھی کہا تھا: اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا. (المزمل) «(اے نبی!) ہم آپ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں »۔ وہی بھاری بات بہت بڑے پیمانے پر اب تمہارے کاندھوں پر آگئی ہے۔
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ: اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ جس پر (اے نبی!) آپ پہلے تھے
اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّـتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ: مگر یہ جاننے کے لیے (یہ ظاہر کرنے کے لیے) کہ کون رسول کا اتباع کرتا ہے اور کون ِپھر جاتا ہے اُلٹے پاؤ ں! ّ
یہاں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد وحی ٔ خفی کے ذریعے نبی اکرم کو بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آنحضور کا اجتہاد ہو، اور اسے اللہ نے قبول فرما لیا ہو۔ رسول اللہ کے اجتہاد پر اگر اللہ کی طرف سے نفی نہ آئے تو وہ گویا اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا جانا ایک امتحان قرار دیا گیا کہ کون اتباعِ رسول کی روش پر گامزن رہتا ہے اور کون دین سے پھر جاتا ہے۔ اس آزمائش میں تمام مسلمان کامیاب رہے اور ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ٹھیک ہے، ہمارا قبلہ وہ تھا، اب آپ نے اپنا قبلہ بدل لیا ہے تو آپ کا راستہ اور ہے ہمارا راستہ اور!
وَاِنْ کَانَتْ لَـکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ: اور یقینا یہ بہت بڑی بات تھی مگر ان کے لیے (دشوار نہ تھی) جن کو اللہ نے ہدایت دی۔
واقعہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی قبول کر لینا آسان بات نہیں ہوتی۔ یہ بڑا حساس ّمسئلہ ہوتا ہے۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَـکُمْ: اور اللہ ہرگز تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔
ایمان سے یہاں مراد نماز ہے جسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات اس تشویش کے جواب میں فرمائی گئی جو بعض مسلمانوں کو لاحق ہو گئی تھی کہ ہماری ان نمازوں کا کیا بنے گا جو ہم نے سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے پڑھی ہیں؟ مسلمان تو رسول اللہ کے حکم کا پابند ہے، اُس وقت رسول کا وہ حکم تھا، وہ اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرا، اِس وقت یہ حکم ہے جو تمہیں رسول کی جانب سے مل رہا ہے ، اب تم اس کی پیروی کرو ۔
اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ: یقینا اللہ تعالیٰ انسانوں کے حق میں بہت ہی شفیق اور بہت ہی رحیم ہے۔