فہرست مضامین > عقائد > ابواب الرسالت > سرور كائنات صلى الله عليه وسلم پيغمبر خدا تعالى هيں
سرور كائنات صلى الله عليه وسلم پيغمبر خدا تعالى هيں
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ
تشریحآیت 119: اِنَّـآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا: (اے نبی!) بے شک ہم نے آپ کو بھیجا ہے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر
آپ كی بنیادی حیثیت یہ ہے کہ آپ اہل ِحق کو جنت اور اس کی تمام تر نعمتوں کی بشارت دیں، اور جو غلط راستے پر چل پڑیں، کفر کریں، منافقت میں مبتلا ہوں، ملحد ہوں اور بد عملی کریں اُن کو آپ خبردار کر دیں کہ ان کے لیے جہنم تیار کر دی گئی ہے۔ آپ کا کام دعوت، ابلاغ، تبلیغ اور نصیحت ہے۔
وَّلاَ تُسْأَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ: اور آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا جہنمیوں کے بارے میں۔
جو لوگ اپنے طرزِ عمل کی بنا پر جہنم کے مستحق قرار پا گئے ہیں ان کے بارے میں آپ ذمہ ّدار نہیں ہیں۔ آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ کیوں جہنم میں پہنچ گئے؟ آپ کے ہوتے ہوئے یہ جہنمی کیوں ہو گئے؟ نہیں، یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ کون جنت میں جانا چاہتا ہے اور کون جہنم میں، یہ آدمی کا اپنا فیصلہ ہے۔ آپ کا کام حق کو واضح کر دینا ہے، اس کی وضاحت میں کمی نہ رہ جائے، حق واضح ہو جائے، کوئی اشتباہ باقی نہ رہے، بس یہ ذمہ داری آپ کی ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔ انسان اگر اپنی اصل مسؤولیت سے زیادہ ذمہ داری اپنے سر پر ڈال لے تو خواہ مخواہ مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کی بہت سی جماعتیں اسی طرح کی غلطیوں کی وجہ سے غلط راستے پر پڑ گئیں اور پوری کی پوری تحریکیں برباد ہو گئیں۔ رسول اللہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ علماء یہود ایمان لے آئیں اور جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ ان کے لیے آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کی ہوں گی۔ جیسے مکی دَور میں آپ دعائیں مانگتے تھے کہ اے اللہ! عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو تو میری جھولی میں ڈال دے اور اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت عطا فرما!
(اے پیغمبر!) بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم (جنت کی) خوشخبری دو اور (جہنم سے) ڈراؤ۔ اور جو لوگ (اپنی مرضی سے) جہنم (کا راستہ) اختیار کر چکے ہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا
تشریحآیت 79: مَـآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَـآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّـئۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ: ’’(اے مسلمان!) تجھے جو بھلائی بھی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے پہنچتی ہے‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ خود تیرے نفس کی طرف سے ہے۔‘‘
اس آیت کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔ میرے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ یہاں تحویل خطاب ہے۔ پہلی آیت میں خطاب ان مسلمانوں کو جن کی طرف سے کمزوری یا نفاق کا اظہار ہو رہا تھا‘ لیکن اس آیت میں بحیثیت مجموعی خطاب ہے کہ دیکھو اے مسلمانو! جو بھی کوئی خیر تمہیں ملتا ہے اس پر تمہیں یہی کہنا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور کوئی شر پہنچ جائے تو اسے اپنے کسب و عمل کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ خیر بھی اللہ کی طرف سے ہے اور شر بھی۔ ’’ایمان مفصل‘‘ میں الفاظ آتے ہیں: ’’وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَشَرِّہ مِنَ اللّٰہِ تَـعَالٰی‘‘ لیکن ایک مسلمان کے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ خیر ملے تو اسے اللہ کا فضل سمجھے۔ اور اگر کوئی خرابی ہو جائے تو سمجھے کہ یہ میری کسی غلطی کے سبب ہوئی ہے‘ مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی تادیب فرمانی چاہی ہے۔
وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً: ’’اور (اے نبی) ہم نے آپ کو تو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
اس مقام کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ درمیانی ٹکڑے میں بھی خطاب تو رسول اللہ ہی سے ہے‘ لیکن استعجاب کے انداز میں کہ اچھا! جو کچھ انہیں خیر مل جائے وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی آ جائے تو وہ آپ کی طرف سے ہے! یعنی کیا بات یہ کہہ رہے ہیں! جبکہ اللہ نے تو آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس کی یہ دو تعبیریں ہیں۔ میرے نزدیک پہلی تعبیر راجح ہے۔
وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا: ’’اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہ کے طور پر۔‘‘
تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اﷲ کی طرف سے ہوتی ہے، اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، وہ تو تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اﷲ (اس بات کی) گواہی دینے کیلئے کافی ہے
كَذَلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوا عَلَيْهِمُ الَّذِيَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ
تشریح آیت ۳۰: کَذٰلِکَ اَرْسَلْنٰکَ فِیْٓ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہَآ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا عَلَیْہِمُ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَہُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ: «(اے نبی !) اسی طرح ہم نے آپ کو بھیجا ہے ایک ایسی امت میں جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں تاکہ آپ تلاوت کر کے سنائیں ان لوگوں کووہ (کتاب) جو ہم نے وحی کی ہے آپ کی طرف درآں حالیکہ یہ لوگ رحمٰن کا انکار کر رہے ہیں۔»
اگرچہ اللہ تعالیٰ کا نام «الرحمن» عرب میں پہلے سے متعارف تھا مگر مشرکین مکہ «اللہ» ہی کو جانتے اور مانتے تھے، اس لیے وہ اس نام سے بدکتے تھے اور عجیب انداز میں پوچھتے تھے کہ یہ رحمن کون ہے؟ (الفرقان:۶۰)
قُلْ ہُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ: «کہہ دیجیے کہ وہ میرا رب ہے، اُس کے سوا اورکوئی معبود نہیں۔»
عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابِ: «اُسی پر میں نے بھروسا کیا ہے اور اُسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔»
(اے پیغمبر ! جس طرح دوسرے رسول بھیجے گئے تھے) اسی طرح ہم نے تمہیں ایک ایسی اُمت میں رسول بنا کر بھیجا ہے جس سے پہلی بہت سی اُمتیں گذر چکی ہیں ، تاکہ تم ان کے سامنے وہ کتاب پڑھ کر سنادو جو ہم نے وحی کے ذریعے تم پر نازل کی ہے، اور یہ لوگ اس ذات کی ناشکری کر رہے ہیں جو سب پر مہربان ہے۔ کہہ دو کہ : ’’ وہ میرا پالنے والا ہے، اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ اُسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے، اور اُسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔ ‘‘
وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا
تشریح آیت ۱۰۵: وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ: «اور اس (قرآن) کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے۔»
یہاں «حق» کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور اس لفظ کی معنوی تاثیر کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے دونوں دفعہ خاص طور پر زور دے کر اور واضح کر کے پڑھا جائے۔ اس آیت کا انداز بالکل وہی ہے جو سورۃ الطارق کی ان آیات میں پایا جاتا ہے: اِنَّہُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ: «یقینا یہ (قرآن) قول ِفیصل ہے اور یہ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے»۔ اس مفہوم کی وضاحت ہمیں حضرت عمر سے مروی اس حدیث نبوی میں ملتی ہے : «اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِیْنَ» «یقینا اللہ اس کتاب کی بدولت کئی قوموں کو اٹھائے گا اور کئی دوسری قوموں کو گرائے گا»۔ چنانچہ قرآن کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عروج بخشا اور جب ہم اس کے تارک ہوئے تو اسی جرم کی پاداش میں ہمیں زمین پر پٹخ دیا گیا:
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمیں افتنده
در بغل داری کتاب ِزنده
(اقبال)
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا: «اور (اے نبی!) نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا۔»
اور ہم نے اس قرآن کو حق ہی کے ساتھ نازل کیا ہے، اور حق ہی کے ساتھ یہ اُترا ہے۔ اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں کسی اور کام کیلئے نہیں ، بلکہ صرف اس لئے بھیجا ہے کہ تم (فرماں برداروں کو) خوشخبری دو، اور (نافرمانوں کو) خبردار کرو
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ
تشریح آیت ۱۰۷: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ: «اور (اے نبی!) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔»
یعنی آپ کی بعثت صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزیرۂ نمائے عرب میں اسلام کے عملی طور پر غلبے کے بعد آپ کی بعثت کا مقصد پورا ہو چکا ہوتا، مگر آپ تو تمام اہل ِعالم کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ کی بعثت کا مقصد قرآن میں تین مقامات ( التوبہ: ۳۳، الفتح: ۲۸ اور الصف: ۹) پر ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ: «وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تا کہ اسے غالب کر دے تمام ادیان پر»۔ گویا آپ کی بعثت کا مقصد تب پورا ہو گا جب دین اسلام کل روئے زمین پر غالب ہو جائے گا۔ اسی مضمون کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!
نور توحید کا اتمام یعنی اسلام کا بطور دین کلی غلبہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک تو حضور کی حیات مبارکہ میں ہی ہو گیا تھا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام کے اس اقتدار کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ بڑی شد و مد سے شروع ہوا مگر دورِ عثمانی میں ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے سازش کے ذریعے عالم اسلام میں «الفتنۃ الکبرٰی» کھڑا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں حضرت عثمان شہید کر دیے گئے اور پھر مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے ہلاک ہو گئے۔ اس فتنہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ نہ صرف غلبہ اسلام کی مزید تصدیر و توسیع کا عمل رک گیا، بلکہ بعض علاقوں سے مسلمانوں کو پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی۔ حضور کی بعثت چونکہ تا قیامِ قیامت کل روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اور آپ کی بعثت کا مقصد «اِظہار دین الحق»(دین حق کا غلبہ) ہے، اس لیے یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک آپ کی بعثت کا یہ مقصد بہ تمام و کمال پورا نہ ہو اور دین اسلام کل عالم ِانسانی پر غالب نہ ہو جائے۔ اس کا صغریٰ و کبریٰ قرآن سے ثابت ہے اور اس کی تفصیلات کتب ِاحادیث میں موجود ہیں۔
اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کیلئے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
تشریحآیت ۴۵ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا:’’اے نبیؐ !یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔‘‘
اس آیت کے الفاظ نبوت اور رسالت کے درمیان ربط و تعلق کو بھی واضح کر رہے ہیں۔ نبوت اور رسالت کے تعلق یا فرق کو کسی شخص کے کسی محکمے کے لیے منتخب ہونے اور پھر اس محکمے کے اندر کسی مخصوص منصب پر اس کے ’’تقرر‘‘ کی مثال سے سمجھنا چاہیے۔ مثلاً جولوگ مقابلے کے امتحان میں کامیاب قرار پاتے ہیں وہ سی ایس پی کیڈر(cadre) کے لیے منتخب ہو جاتے ہیں۔ لیکن محض اس کیڈر میں منتخب ہوجانے سے ان میں سے کسی کو نہ تو کوئی اختیار ملتا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب ان میں سے کسی کا کسی منصب یا عہدے پر تقرر کر دیا جاتا ہے، مثلاً کسی جگہ ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے تعینات کر دیا جاتا ہے، تو اس منصب کے اختیارات بھی اسے حاصل ہو جاتے ہیں اور اس سے متعلقہ ذمہ داریاں بھی اس کے کندھوں پر آ جاتی ہیں۔ اس مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ نبوت ایک ’’کیڈر‘‘ ہے، جبکہ رسالت ایک خصوصی’’تقرر‘‘ ۔ یعنی نسل ِانسانی میں سے جو لوگ نبوت کے لیے منتخب ہوئے وہ سب انبیاء قرار پائے۔ لیکن جب ان میں سے کسی نبی کو کسی خاص قوم کی طرف بھیجا گیا تو انہیں رسالت مل گئی اور اس ’’تقرر‘‘ کے بعد وہ رسو ل بن گئے۔
اسی اصول کے تحت حضور کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپؐ کی نبوت کا ظہور پہلی وحی کے ساتھ ہوا، جبکہ آپؐ کی رسالت کا آغاز اس وقت ہوا جب آپؐ کو باقاعدہ تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پہلی وحی ان آیات پر مشتمل تھی: (اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ) ’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پید اکیا۔ اس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھئے اور آپؐ کا رب بہت کریم ہے۔ وہ ذات جس نے (علم) سکھایا قلم کے ذریعے۔ اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
ان پانچ آیات کے اندر نہ تو آپؐ کو تبلیغ کا کوئی حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اورذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس لیے بجا طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ اس وحی کے ذریعے صرف آپؐ کی نبوت کا ظہور ہوا تھا، جبکہ آپؐ کی رسالت کا آغاز اس وحی سے ہوا: (یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ) (المدثر) ’’اے چادر میں لپٹنے والے! اٹھئے اور خبردار کیجیے، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے‘‘۔ ان آیات میں گویا آپؐ کو لوگوں تک پیغام پہنچانے کا واضح حکم دے کر باقاعدہ ’’رسالت‘‘ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ چنانچہ زیر مطالعہ آیت میں حضور کو ’’نبی‘‘ کی حیثیت سے مخاطب کر کے منصب ِرسالت عطا کرنے کے ذکر (یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ) سے جہاں نبوت اور رسالت کا فرق واضح ہو جاتاہے وہاں اس نکتے کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ پہلے آپؐ کو نبوت عطا ہوئی اور بعد میں رسالت۔
آیت میں رسالت کے حوالے سے حضور کی جن تین ذمہ داریوں (شہادت علی الناس، تبشیراور انذار) کا ذکر کیا گیاہے ان کی وضاحت قرآن کی بہت سی دوسری آیات میں بھی ملتی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۴۳ میں آپؐ کی ’’شہادت‘‘ کی ذمہ داری کے حوالے سے یوں فرمایا گیا: (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا) ’’اور(اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘ ۔ سورۃ الحج کی آخری آیت میں بھی یہ مضمون ان ہی الفاظ میں آیا ہے، البتہ الفاظ کی ترتیب ذرا مختلف ہے: (لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ: ’’تا کہ پیغمبر تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔‘‘ اسی طرح تبشیر اور انذار کے حوالے سے بھی قرآن میں بہت سی آیات آئی ہیں، صیغہ واحد میں بھی اور جمع کے صیغہ میں بھی۔
اے نبی ! بیشک ہم نے تمہیں ایسا بنا کربھیجا ہے کہ تم گواہی دینے والے، خوشخبری سنانے والے اور خبر دار کرنے والے ہو
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ
تشریحآیت ۲۸ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا: ’’اور (اے نبی !) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام بنی نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘
تمام انبیاء و رسل میں یہ اعزاز صرف محمد ٌرسول اللہ کے حصے میں آیا کہ آپؐ کو تمام بنی نوع انسانی کی طرف رسولؐ بنا کر بھیجا گیا۔ اس سلسلے میں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کیجئے کہ یہ فیصلہ تاریخ انسانی کے اس مرحلے پر کیا گیا جب انسانی تمدن اور ذرائع رسل و رسائل کی ترقی کے باعث آپ کی دعوت کو دنیا کے کونے کونے میں ایک ایک شخص تک پہنچانا عملی طور پر ممکن ہونے کے قریب تھا۔ ورنہ اس سے پہلے عملی طور پر کسی نبی یا رسول کی دعوت کو پوری نوعِ انسانی تک پہنچانا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آئے وہ مخصوص علاقوں میں ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہو کر آئے۔ اسی لیے آپؐ سے پہلے کے پیغمبروں کی بعثت کا تعارف قرآن حکیم میں اس طرح کرایا گیا ہے: (وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا) (ھود: ۵۰) وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا) (ھود:۶۱)، (وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا) (ھود: ۸۴)۔ لیکن حضور کی بعثت کے بارے میں یہاں یوں فرمایا گیا: (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا)۔
وَّلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ: ’’لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کیلئے ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے، اور خبردار بھی کرے، لیکن اکثر لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں
إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
تشریحآیت ۳ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ: ’’کہ ( اے محمد !) یقینا آپ رسولوں میں سے ہیں۔‘‘
گویا حضور کی رسالت کا سب سے بڑا ’’مُصدِّق‘‘ (تصدیق کرنے والا) اور سب سے بڑا ثبوت قرآن حکیم ہے۔ اور قرآن حکیم ہی آپؐ کا سب سے بڑا معجزہ بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ قرآن کی قسم اور بھی کئی سورتوں کے آغاز میں کھائی گئی ہے مگر وہاں قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے۔ مثلاً سورۂ صٓ کی پہلی آیت میں یوں فرمایا گیا: (صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ)، سورۃالزخرف کے شروع میں یوں فرمایا گیا: (حٰمٓ وَالْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ)، سورۂ ق کا آغاز یوں ہوتاہے: (قٓ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ)۔ اب چونکہ سورۂ یٰـسٓ کی اِن آیات میں قرآن کی قسم کے مقسم علیہ کا ذکر بھی ہے اس لیے قرآن کی جن قسموں کا مقسم علیہ مذکور نہیں ان کا مقسم علیہ بھی وہی قرار پائے گا جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم تو کھائی گئی ہے لیکن قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکرنہیں ہے، وہاں ان تمام قسموں کے بعد اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کا جملہ بطور مقسم علیہ محذوف (understood) مانا جائے گا۔ اس اعتبار سے سورۂ یٰـسٓ ایسی تمام سورتوں کے لیے ذروۂ سنام (climax) کا درجہ رکھتی ہے جن کے آغاز میں قرآن کی قسم کا ذکر ہے۔
تم یقینا پیغمبروں میں سے ہو