آیت 196: وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ: اور حج اور عمرہ مکمل کرو اللہ کے لیے۔
عمرہ کے لیے احرام تو مدینہ منورہ سے سات میل باہر نکل کر ہی باندھ لیا جائے گا، لیکن حج مکمل تب ہو گا جب طواف بھی ہوگا، وقوفِ عرفہ بھی ہوگا اور اس کے سارے مناسک ادا کیے جائیں گے۔ لہٰذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کی نیت کر لے تو پھر اسے تمام مناسک کو مکمل کرنا چاہیے، کوئی کمی نہ رہے۔
فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ: پھر اگر تمہیں گھیر لیا جائے،
یعنی روک دیا جائے، جیسا کہ 6 ہجری میں ہوا کہ مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کرنی پڑی اور عمرہ ادا کیے بغیر واپس جانا پڑا۔ مشرکین مکہ اَڑ گئے تھے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ: تو جو کوئی بھی قربانی میسر ّہو وہ پیش کر دو۔
یہ دمِ احصار کہلاتا ہے کہ چونکہ اب ہم آگے نہیں جا سکتے، ہمیں یہیں احرام کھولنا پڑ رہا ہے تو ہم اللہ کے نام پر یہ جانور دے رہے ہیں ۔ یہ ایک طرح سے اس کا کفارہ ہے۔
وَلاَ تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہ: اور اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔
یعنی جہاں جا کر قربانی کا جانور ذبح ہونا ہے وہاں پہنچ نہ جائے۔ اگر آپ کو حج یا عمرہ سے روک دیا گیا اور آپ نے قربانی کے جانور آگے بھیج دیے تو آپ کو روکنے والے ان جانوروں کو نہیں روکیں گے، اس لیے کہ ان کا گوشت تو انہیں کھانے کو ملے گا۔ اب اندازہ کر لیا جائے کہ اتنا وقت گزر گیا ہے کہ قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ گیا ہو گا ۔
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہ: پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو
یعنی سر میں کوئی زخم وغیرہ ہو اور اُس کی وجہ سے بال کٹوانے ضروری ہو جائیں۔
فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ: تو وہ فدیہ کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔
اگر اس ہدی کے جانور کے کعبہ پہنچنے سے پہلے پہلے تمہیں اپنے بال کاٹنے پڑیں تو فدیہ ادا کرنا ہو گا۔ یعنی ایک کمی جو رہ گئی ہے اس کی تلافی کے لیے کفارہ ّادا کرنا ہو گا۔ اس کفارے ّکی تین صورتیں بیان ہوئی ہیں: روزے ، یا صدقہ ، یا قربانی۔ اس کی وضاحت احادیث ِنبویہ سے ہوتی ہے کہ یا تو تین دن کے روزے رکھے جائیں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے، یا کم از کم ایک بکری کی قربانی دی جائے۔ اس قربانی کو دمِ جنایت کہتے ہیں۔
فَاِذَآ اَمِنْتُمْ: پھر جب تمہیں امن حاصل ہو (اور تم سیدھے بیت اللہ پہنچ سکتے ہو)
فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ: تو جو کوئی بھی فائدہ اٹھائے عمرے کا حج سے قبل تو وہ قربانی پیش کرے جو بھی اسے میسر ّہو۔
رسول اللہ کی بعثت سے پہلے اہل عرب کے ہاں ایک سفر میں حج اور عمرہ دونوں کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا ۔ ان کے نزدیک یہ کعبہ کی توہین تھی۔ ان کے ہاں حج کے لیے تین مہینے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ تھے، جبکہ رجب کا مہینہ عمرے کے لیے مخصوص تھا۔ وہ عمرے کے لیے علیحدہ سفر کرتے اور حج کے لیے علیحدہ۔ یہ بات حدودِ حرم میں رہنے والوں کے لیے تو آسان تھی، لیکن اس اُمت کو تو پوری دنیا میں پھیلنا تھا اور دور دراز سے سفر کر کے آنے والوں کے لیے اس میں مشقت تھی۔ لہٰذا شریعت ِمحمدی میں لوگوں کے لیے جہاں اورآسانیاں پیدا کی گئیں وہاں حج و عمرہ کے ضمن میں یہ آسانی بھی پیدا کی گئی کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کر لیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے عمرہ کر کے احرام کھول دیا جائے اور پھر آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ لیا جائے۔ یہ حج ِتمتع کہلاتا ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حج کے لیے احرام باندھا تھا، جاتے ہی عمرہ بھی کر لیا، لیکن احرام کھولا نہیں اور اسی احرام میں حج بھی کر لیا۔ یہ حج ِقران کہلاتا ہے۔ لیکن اگر شروع ہی سے صرف حج کا احرام باندھا جائے اور عمرہ نہ کیا جائے تو یہ حج ِافراد کہلاتا ہے۔ قران یا تمتع کرنے والے پر قربانی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ اسے دمِ شکر کہتے ہیں اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت دیتے ہیں۔ امام شافعی کے نزدیک یہ دمِ جبر ہے اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں ہے۔
فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْْحَجِّ: جس کو قربانی نہ ملے تو وہ تین دن کے روزے ایامِ حج میں رکھے
یعنی عین ایامِ حج میں ساتویں، آٹھویں اور نویں ذوالحجہ کو روزہ رکھے۔ دسویں کا روزہ نہیں ہو سکتا، وہ عید کا دن (یوم النحر) ہے۔
وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ: اور سات روزے رکھو جبکہ تم واپس پہنچ جاؤ۔
اپنے گھروں میں جا کر سات روزے رکھو۔
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ: یہ کل ُ دس (روزے) ہوں گے۔
ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَہْلُہ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: یہ (رعایت) اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے قریب نہ رہتے ہوں۔
یعنی ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کرنے کی رعایت، خواہ تمتع ّکی صورت میں ہو یا قِران کی صورت میں، صرف آفاقی کے لیے ہے، جس کے اہل و عیال جوارِ حرم میں نہ رہتے ہوں، یعنی جو حدودِ حرم کے باہر سے حج کرنے آیا ہو۔
وَاتَّقُوا اللّٰہَ: اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ: اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔