فہرست مضامین > حقوق العباد >فقير، مسكين اور مسافر كا حق
فقير، مسكين اور مسافر كا حق
پارہ
سورۃ
آیت
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ، اس سورئہ مبارکہ میں کئی ایسی عظیم آیات آئی ہیں جو حجم کے اعتبار سے بھی اور معنی و حکمت کے اعتبار سے بھی بہت عظیم ہیں، جیسے دو رکوع پہلے «آیت الآیات» گزر چکی ہے۔ اسی طرح سے اب یہ «آیت ُ البر» ِآ رہی ہے، جس میں نیکی کی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کے مختلف تصو ّرات ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نیکی کا تصور یہ ہے کہ بس سچ بولنا چاہیے ، کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے، کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے، یہ نیکی ہے، باقی کوئی نماز، روزہ کی پابندی کرے یا نہ کرے اس سے کیا فرق پڑتا ہے! ایک طبقہ وہ ہے جس میں چور، اُچکے، گرہ کٹ ، ڈاکو اور بد معاش شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ہاں نیکی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم فروش خواتین بھی اپنے ہاں نیکی کا ایک تصور رکھتی ہیں، وہ خیرات بھی کرتی ہیں اور مسجدیں بھی تعمیر کراتی ہیں۔ ہماے ہاں مذہبی طبقات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے ظاہر کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی روح سے نا آشنا ہوتا ہے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں ۔ ان کے اختلافات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ رفع یدین کے بغیر نماز ہوئی یا نہیں؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس ہیں؟ باقی یہ کہ سودی کاروبار تم بھی کرو اور ہم بھی ، اس سے کسی کی حنفیت ّیا اہل حدیثیّت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ نیکی کے یہ سارے تصورات مسخ شدہ (perverted) ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اندھوں نے ایک ہاتھی کو دیکھ کر اندازہ کرنا چاہا تھا کہ وہ کیسا ہے۔ کسی نے اُس کے پیر کو ٹٹول کر کہا کہ یہ تو ستون کی مانند ہے، جس کا ہاتھ اُس کے کان پر پڑ گیا اُس نے کہا یہ چھاج کی طرح ہے۔ اسی طرح ہمار ے ہاں نیکی کا تصور تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال:
اڑائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!
یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے، اس کی جڑ، بنیاد کیا ہے، اس کی روح کیا ہے، اس کے مظاہر کیا ہیں؟ پھر ان مظاہر میں اہم ترین کون سے ہیں اور ثانوی حیثیت کن کی ہے؟ چنانچہ اس ایک آیت کی روشنی میں قرآن کے علم الاخلاق پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جا سکتی ہے۔ گویا اخلاقیاتِ قرآنی (Quranic Ethics) کے لیے یہ آیت جڑ اور بنیاد ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ یہ آیت یہاں کیونکر آئی ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی وہی تحویلِ قبلہ ہے۔ تحویل قبلہ کے بارے میں چار رکوع (15 تا 18) تو مسلسل ہیں۔ اس سے پہلے چودھویں رکوع میں آیت آئی ہے: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّـوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ. (آیت: 115) اِدھر بھی اٹھارہویں رکوع کے بعد اتنی آیتیں چھوڑ کر یہ آیت آ رہی ہے۔ فرمایا:
آیت 177: لَـیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّـوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ: نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو ،
اس عمل کے نیکی ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے۔ یہ بھی نیکی ہے۔ نیکی کا جو ظاہر ہے وہ بھی نیکی ہے، لیکن اصل شے اس کا باطن ہے۔ اگر باطن صحیح ہے تو حقیقت میں نیکی نیکی ہے، ورنہ نہیں۔
وَلٰــکِنَّ الْبِرَّ: بلکہ نیکی تو اُس کی ہے
مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِكَةِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِيِيْنَ: جو ایمان لائے اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر۔
سب سے پہلے نیکی کی جڑ بنیاد بیان کر دی گئی کہ یہ ایمان ہے، تاکہ تصحیح نیت ہو جائے۔ ایمانیات میں سب سے پہلے اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی جو نیکی کر رہا ہے وہ صرف اللہ سے اجر کا طالب ہے۔ پھر قیامت کے دن پر ایمان کا ذکر ہوا کہ اس نیکی کا اجر دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں مطلوب ہے۔ ورنہ تو یہ سودا گری ہوگئی۔ اور آدمی اگر سودا گری اور دکان داری کرے تو دنیا کی چیزیں بیچے، دین تو نہ بیچے۔ دین کا کام کر رہا ہے تو اس کے لیے سوائے اُخروی نجات کے اور اللہ کی رضا کے کوئی اور شے مقصود نہ ہو۔ یومِ آخرت کے بعد فرشتوں، کتابوں اور انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان کا ذکر کیا گیا۔ یہ تینوں مل کر ایک یونٹ بنتے ہیں۔ فرشتہ وحی کی صورت میں کتاب لے کر آیا، جو انبیاء کرام پر نازل ہوئی۔ ایمان بالرسالت کا تعلق نیکی کے ساتھ یہ ہے کہ نیکی کا ایک ّمجسمہ، ایک ماڈل، ایک آئیڈیل اُسوئہ رسول کی صورت میں انسانوں کے سامنے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اونچ نیچ ہو جائے۔ نیکیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جذبات میں ایک طرف کو نکل گیا اورکوئی دوسری طرف کو نکل گیا۔ اس گمراہی سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے کہ ایک مکمل اُسوہ سامنے رہے، جس میں تمام چیزیں معتدل ہوں اور وہ اُسوہ ہمارے لیے ٌمحمد رسو ل اللہ کی شخصیت ہے۔ نیکی کے ظاہر کے لیے ہم آپ ہی کو معیار سمجھیں گے۔ جو شے جتنی آپ کی سیرت میں ہے ، اُس سے زیادہ نہ ہو اور اُس سے کم نہ ہو۔ کوشش یہ ہو کہ انسان بالکل رسول اللہ کے اُسوئہ کاملہ کی پیروی کرے۔
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہ: اوروہ خرچ کرے مال اس کی محبت کے باوجود
یعنی مال کی محبت کے علی الرغم «عَلٰی حُبِّہ» میں ضمیر متصل ّاللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ مال کے لیے ہے۔ مال اگرچہ محبوب ہے پھر بھی وہ خرچ کر رہا ہے۔
ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ: قرابت داروں، یتیموں، ، محتاجوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں۔
گویا نیکی کے مظاہر میں اوّلین مظہر انسانی ہمدردی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو نیکی کا وجود نہیں ہے۔ عبادات کے انبار لگے ہوں مگر دل میں شقاوت ہو، انسان کو حاجت میں دیکھ کر دل نہ پسیجے، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تجوری کی طرف ہاتھ نہ بڑھے، حالانکہ تجوری میں مال موجود ہو، تو یہ طرزِ عمل دین کی روح سے بالکل خالی ہے۔ سورئہ آل عمران (آیت: 92) میں الفاظ آئے ہیں: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ. «تم نیکی کے مقام کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو اس میں سے جو تمہیں محبوب ہے»۔ یہ نہیں کہ جس شے سے طبیعت اکتا گئی ہو، جو کپڑے بوسیدہ ہو گئے ہوں وہ کسی کو دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی جائے۔ جو شے خود کو پسند ہو، عزیز ہو اگر اس میں سے نہیں دیتے تو تم نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے۔
وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ: اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ۔
حکمت دین: ملاحظہ کیجیے کہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد آیا ہے۔ اس لیے کہ روحِ دین ایمان ہے اور نیکی کے مظاہر میں سے مظہر ِاوّل انسانی ہمدردی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہاں زکوٰۃ کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے، جبکہ اس سے قبل ایتائے مال کا ذکر ہو چکا ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ))
«یقینا مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے»۔
یعنی اگر کچھ لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ بس ہم نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو پورا حق ادا ہو گیا ، تو یہ ان کی خام خیالی ہے، مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ اور آپ نے یہی مذکورہ بالا آیت پڑھی۔
ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ایمان کو تر وتازہ رکھنے کے لیے نماز ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِيْ (طٰـہٰ) «نماز قائم کرو میری یاد کے لیے»۔ اور انسانی ہمدردی میں مال خرچ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے زکوٰۃ ہے کہ اتنا تو کم سے کم دینا ہو گا، تاکہ بوتل کا منہ تو کھلے۔ اگر بوتل کا کارک نکل جائے گا تو اُمید ہے کہ اس میں سے کوئی شربت اور بھی نکل آئے گا۔ چنانچہ اڑھائی فیصد تو فرض زکوٰۃ ہے۔ جو یہ بھی نہیں دیتا وہ مزید کیا دے گا؟
وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا: اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب کوئی عہد کر لیں۔
انسان نے سب سے بڑا عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا جو «عہد الست» کہلاتا ہے ، پھر شریعت کا عہد ہے جو ہم نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے۔ پھر آپس میں جو بھی معاہدے ہوں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ معاملاتِ انسانی سارے کے سارے معاہدات کی شکل میں ہیں۔ شادی بھی شوہر اور بیوی کے ما بین ایک سماجی معاہدہ (social contract) ہے۔ شوہر کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں اور بیوی کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں، بیوی کے شوہر پر حقوق ہیں۔ پھر آجر اور مستأجر کا جو باہمی تعلق ہے وہ بھی ایک معاہدہ ہے۔ تمام بڑے بڑے کاروبار معاہدوں پر ہی چلتے ہیں۔ پھر ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ بھی معاہدوں پر مبنی ہے۔ تو اگر لوگوں میں ایک چیز پیدا ہو جائے کہ جو عہد کر لیا ہے اسے پورا کرنا ہے تو تمام معاملات سدھر جائیں گے، ان کی ( stream lining) ہو جائے گی۔
وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآء وَالضَّرَّآء وَحِیْنَ الْبَاْسِ: اور خاص طور پر صبر کرنے والے فقر و فاقہ میں، تکالیف میں اور جنگ کی حالت میں۔
یہ نیکی بدھ مت کے بھکشوؤں کی نیکی سے مختلف ہے۔ یہ نیکی باطل کو چیلنج کرتی ہے۔ یہ نیکی خانقاہوں تک محدود نہیں ہوتی، صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اللہ کو جو نیکی مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ۔ اور جب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ گے تو خود بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی ۔ اس راہ میں صحابہ کرام کو بھی تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور جانیں دینی پڑی ہیں۔ اللہ کا کلمہ سر بلند کرنے کے لیے سینکڑوں صحابہ کرام نے جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ دنیا کے ہر نظامِ اخلاق میں خیر اعلیٰ (summum bonum) کا ایک تصو ّر ہوتا ہے کہ سب سے اونچی نیکی کیا ہے! قرآن کی رو سے سب سے اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ حق کے غلبے کے لیے صداقت، دیانت اور امانت کی بالا دستی کے لیے اپنی گردن کٹا دی جائے ۔ وہ آیت یاد کر لیجیے جو چند رکوع پہلے ہم پڑھ چکے ہیں: وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَـآءٌ وَّلٰــکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ. «اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں (جام شہادت نوش کر لیں) انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعورحاصل نہیں ہے»۔
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا: یہ ہیں وہ لوگ جو سچے ہیں۔
راست بازی اور نیکو کاری کا دعویٰ تو بہت سوں کو ہے، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دعوے میں سچے ہیں۔
وَاُولٰٓئِكَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ: اور یہی حقیقت میں متقی ّہیں۔
ہمارے ذہنوں میں نیکی اور تقویٰ کے کچھ اور نقشے بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید تقویٰ کسی مخصوص لباس اورخاص وضع قطع کا نام ہے۔ یہاں قرآن حکیم نے نیکی اور تقویٰ کی حامل انسانی شخصیت کا ایک ہیولا اور اس کے کردار کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ اس کے باطن میں روحِ ایمان موجود ہے اور خارج میں اس ترتیب کے ساتھ دین کے یہ تقاضے اور نیکی کے یہ مظاہر موجود ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ، اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ (آمین یا ربّ العالمین)
اس کے بعد وہی جو انسانی معاملات ہیں ان پر بحث چلے گی۔ سورۃ البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کے بارے میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ یہ گویا چار لڑیوں پر مشتمل ہیں، جن میں سے دو لڑیاں عبادات اور احکام و شرائع کی ہیں۔
نیکی بس یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور اﷲ کی کتابو ں اور اس کے نبیوں پرایمان لائیں اور اﷲ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں اور غلاموں کو آزادکرانے میں خرچ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور جب کوئی عہد کر لیں تو اسے پورا کرنے کے عادی ہوں اور تنگی اور تکلیف میں، نیز جنگ کے وقت، صبر واستقلال کے خوگر ہوں ۔ ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
اب واضح کیا جا رہا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کا سب سے بڑھ کر حق دار کون ہے۔
آیت 273: لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : «یہ ان ضرورت مندوں کے لیے ہے جو گِھر کر رہ گئے ہیں اللہ کی راہ میں»
جیسے رسول اللہ کے دور میں اصحابِ صفہ تھے کہ مسجد نبوی میں آ کر بیٹھے ہوئے ہیں اوراپنا وقت تلاشِ معاش میں َصرف نہیں کر رہے‘ آنحضور سے علم سیکھ رہے ہیں اور جہاں جہاں سے مطالبہ آرہا ہے کہ معلمین اور مبلغین ّکی ضرورت ہے وہاں ان کو بھیجا جا رہا ہے۔ اگر وہ معاش کی ّجدوجہد ُکرتے تو یہ تعلیم کیسے حاصل کرتے؟ اسی طرح دین کی کسی خدمت کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں تو وہ اس کا مصداق ہوں گے۔ آپ نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر واشاعت کے لیے کوئی تحریک اٹھائی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ ہمہ وقتی کارکن درکار ہوں گے۔ ان کارکنوں کی معاش کا مسئلہ ہو گا۔ وہ آٹھ آٹھ گھنٹے دفتروں میں جا کر کام کریں اور وہاں افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سنیں‘ آنے جانے میں بھی دو دو گھنٹے لگائیں تو اب وہ دین کے کام کے لیے کون سا وقت نکالیں گے اور کیا کام کریں گے؟ لہٰذا کچھ لوگ تو ہونے چاہئیں جو اس کام میں ہمہ وقت لگ جائیں۔ لیکن پیٹ تو ان کے ساتھ بھی ہیں‘ اولاد تو ان کی بھی ہو گی۔
لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ : «وہ (اپنے کسب معاش کے لیے) زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ »
زمین کے اندر گھوم پھر کر تجارت کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَـآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ : «نا واقف آدمی ان کو خوشحال خیال کرتا ہے ان کی خود داری کے سبب۔ »
یہ اس طرح کے فقیر تو ہیں نہیں جو لپٹ کر مانگتے ہوں۔ ان کی خود داری کی وجہ سے عام طورپر جو ناواقف شخص ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ غنی ہیں‘ خوشحال ہیں‘ انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں‘ انہوں نے کبھی مانگا ہی نہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے سوالی نہیں ہیں‘ وہ فقیر نہیں ہیں‘ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو لگا دیا ہے۔ یہ تمہارا کام ہے کہ انہیں تلاش کرو اور ان کی ضروریات پوری کرو۔
تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ : «تم پہچان لو گے انہیں ان کے چہروں سے۔ »
ظاہر بات ہے کہ فقر و احتیاج کا اثر چہرے پر تو آ جاتا ہے۔ اگر کسی کو صحیح غذا نہیں مل رہی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہو گا۔
لاَ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا : «وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ »
وہ ان سائلوں کی طرح نہیں ہیں جو اصل میں اپنی محنت کا صلہ وصول کرتے ہیں کہ آپ کے سر ہو کر آپ سے زبردستی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اقامت ِدین کی ّجدوجہد ُمیں جو لوگ ہمہ وقت لگ جائیں ‘ آخر ان کے لیے ذریعہ ٔ معاش کیا ہو؟ اس وقت اس پر تفصیل سے گفتگو ممکن نہیں۔ بہرحال یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دو رکوع انفاق کے موضوع پر قرآن حکیم کا نقطہ ٔعروج ہیں اور یہ آخری آیت ان میں اہم ترین ہے۔
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْمٌ : «اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے۔ »
یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا انفاق اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ تم خاموشی کے ساتھ‘ اخفا کے ساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بھر پور بدلہ دے گا۔
(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقرا ء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اﷲ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کیلئے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے ۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے ۔ اس لئے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے ۔ تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اﷲ اسے خوب جانتا ہے