آیت 220: فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ : «دنیا اور آخرت (کے معاملات) میں۔ »
تمہارا یہ غور و فکر دنیا کے بارے میں بھی ہونا چاہیے اور آخرت کے بارے میں بھی۔ دنیا میں بھی اسلام رہبانیت نہیں سکھاتا۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ نہ کھاؤ‘ نہ پیو‘ چلے کشی کرو‘ جنگلوں میں نکل جاؤ! نہیں‘ اسلام تو متمدن زندگی کی تعلیم دیتا ہے‘ گھر گھرہستی اور شادی بیاہ کی ترغیب دیتا ہے‘ بیوی بچوں کے حقوق بتاتا ہے اور ان کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمہیں آخرت کی بھی فکر کرنی چاہیے‘ اور دنیا و آخرت کے معاملات میں ایک نسبت و تناسب (ratio proportion) قائم رہنا چاہیے۔ دنیا کی کتنی قدر و قیمت ہے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی کتنی قدر و قیمت ہے‘ اس کا صحیح طور پر اندازہ کرنا چاہیے۔ اگر یہ اندازہ غلط ہو گیا اور کوئی غلط تناسب قائم کر لیا گیا تو ہر چیز تلپٹ ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر ایک دوا کے نسخے میں کوئی چیز کم تھی‘ کوئی زیادہ تھی۔ اگر آپ نے جو چیز کم تھی اسے زیادہ کر دیا اور جو زیادہ تھی اسے کم کر دیا تو اب ہو سکتا ہے یہ نسخہ ٔ شفا نہ رہے‘ نسخہ ہلاکت بن جائے۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی : «اور یہ آپ سے پوچھ رہے ہیں یتیموں کے بارے میں۔ »
قُلْ اِصْلاَحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ : «(اے نبی ! ان سے ) کہہ دیجیے کہ (جس طرزِ عمل میں) ان کی بھلائی اور مصلحت (ہو وہی اختیار کرنا) بہتر ہے۔ »
ان کی مصلحت کو پیش نظر رکھنا بہتر ہے‘ نیکی ہے‘ بھلائی ہے۔ اصل میں لوگوں کے سامنے سورئہ بنی اسرائیل کی یہ آیت تھی : وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلاَّ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ: (آیت: 34) «اور مالِ یتیم کے قریب تک نہ پھٹکو‘ مگر ایسے طریقے پر جو (یتیم کے حق میں) بہتر ہو»۔ چنانچہ وہ مالِ یتیم کے بارے میں انتہائی احتیاط کر رہے تھے اور انہوں نے یتامٰی کی ہنڈیاں بھی علیحدہ کر دی تھیں کہ مبادا اُن کے حصے کی کوئی بوٹی ہمارے پیٹ میں چلی جائے ۔ لیکن اس طرح یتامٰی کی دیکھ بھال کرنے والے لوگ تکلیف اور حرج میں مبتلا ہو گئے تھے۔ کسی کے گھر میں یتیم پرورش پا رہا ہے تو اس کا خرچ الگ طور پر اس کے مال میں سے نکالا جا رہا ہے اور اس کے لیے الگ ہنڈیا پکائی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ اُس حکم سے یہ مقصد نہیں تھا‘ مقصد یہ تھا کہ تم کہیں ان کے مال ہڑپ نہ کر جاؤ ‘ان کے لیے اصلاح اور بھلائی کا معاملہ کرنا بہتر طرزِعمل ہے۔
وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُـکُمْ : «اور اگر تم ان کو اپنے ساتھ ملائے رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہی تو ہیں۔ »
وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ : «اوراللہ جانتا ہے مفسد کو بھی اور مصلح کو بھی۔ »
وہ جانتا ہے کہ کون بد نیتی سے یتیم کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور کون یتیم کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ یہ ہنڈیا علیحدہ کر کے بھی گڑبڑ کر سکتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو ہنڈیا مشترک کر کے بھی حق پر رہ سکتا ہے۔
وَلَوْ شَائَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَـکُمْ : «اوراگر اللہ چاہتا تو تمہیں سختی ہی میں ڈالے رکھتا۔ »
لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں مشقت اور سختی سے بچایا اور تم پر آسانی فرمائی۔
اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ : «یقینا اللہ تعالیٰ زبردست ہے ‘حکمت والا ہے۔ »
وہ انتہائی مشقت پر مبنی سخت سے سخت حکم بھی دے سکتا ہے‘ اس لیے کہ وہ زبردست ہے‘ لیکن وہ انسانوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا‘ بلکہ اس کے ہر حکم کے اندر حکمت ہوتی ہے۔ اور جہاں حکمت نرمی کی متقاضی ہوتی ہے وہاں وہ رعایت دیتا ہے۔