الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لاَ يَتَّقُونَ
تشریح آیت 56: اَلَّذِیْنَ عٰہَدْتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّہُمْ لاَ یَتَّقُوْنَ: ’’وہ لوگ جن سے (اے نبی) آپ نے معاہدہ کیا تھا، پھر وہ ہر مرتبہ اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور وہ (اس بارے میں) ڈرتے نہیں ہیں۔‘‘
یہ اشارہ یہودِ مدینہ کی طرف ہے۔ رسول اللہ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے آتے ہی یہودیوں سے مذاکرات شروع کیے اور نتیجتاً مدینہ کے تینوں یہودی قبائل سے شہر کے مشترکہ دفاع کا معاہدہ کر لیا۔ پروفیسر منٹگمری واٹ (1909 ء تا 2006 ء) نے اس معاہدے کو آپ کا ایک بہت بڑا مدبرانہ کارنامہ قرار دیا ہے۔ اس نے اس سلسلے میں آپ کی معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ظاہری طور پر اگرچہ یہودی اس معاہدے کے پابند تھے مگر خفیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف سازشوں سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ انہوں نے ہر مشکل مرحلے پر اس معاہدے کا پاس نہ کرتے ہوئے آپ کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز کی‘ حتیٰ کہ غزوۂ احزاب کے انتہائی نازک موقع پر قریش کو خفیہ طور پر پیغامات بھجوائے کہ آپ لوگ باہر سے شہر پر حملہ کر دیں، ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔
یہ لوگ وہ ہیں جن سے تم نے عہد لے رکھا ہے، اس کے باوجود یہ ہر مرتبہ اپنے عہد کو توڑدیتے ہیں ، اور ذرا نہیں ڈرتے
فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
تشریح آیت 57: فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِی الْْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ: ’’تو اگر آپ انہیں جنگ میں پا جائیں تو ان کو ایسی سزا دیں کہ جو ان کے پیچھے ہیں ان کو بھی خوف زدہ کر دیں‘ تاکہ وہ عبرت حاصل کریں۔‘‘
یہ یہودی آپ لوگوں کے خلاف کفار مکہ کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر سازشیں تو ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں‘ لیکن اگر ان میں سے کچھ لوگ میدانِ جنگ میں بھی پکڑے جائیں کہ وہ قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں ان کو ایسی عبرت ناک سزا دو کہ قریش مکہ جو پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریں ہلا رہے ہیں اور اِن سازشوں کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں اُن کے ہوش بھی ٹھکانے آ جائیں۔
لہٰذا اگر کبھی یہ لوگ جنگ میں تمہارے ہاتھ لگ جائیں ، تو ان کو سامانِ عبرت بنا کر اُن لوگوں کو بھی تتر بتر کر ڈالو جو ان کے پیچھے ہیں ، تاکہ وہ یاد رکھیں
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الخَائِنِينَ
تشریح آیت 58: وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَآءٍ: ’’اور اگر آپ کو اندیشہ ہو جائے کسی قوم کی طرف سے بدعہدی کا تو پھینک دیجیے (ان کا معاہدہ) ان کی طرف کھلم کھلا۔‘‘
پچھلی آیات میں انفرادی فعل کے طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کا ذکر تھا۔ مثلاً کسی قبیلے کا کوئی فرد اس طرح کی کسی سازش میں ملوث پایا جائے توممکن ہے ایسی صورت میں اس کے قبیلے کے لوگ یا سردار اس سے بریٔ الذمہ ہو جائیں کہ یہ اس شخص کا ذاتی اور انفرادی فعل ہے اور اجتماعی طور پر ہمارا قبیلہ بدستور معاہدے کا پابند ہے۔ لیکن اس آیت میں قومی سطح پر اس مسئلے کا حل بتایا گیا ہے کہ اے نبی! اگر آپ کو کسی قوم یا قبیلے کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں آپ ان کے معاہدے کو علی الاعلان منسوخ (abrogate) کر دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اخلاق کے جس معیار پر دیکھنا چاہتا ہے اس میں یہ ممکن نہیں کہ بظاہر معاہدہ بھی قائم رہے اور اندرونی طور پر ان کے خلاف اقدام کی منصوبہ بندی بھی ہوتی رہے‘ بلکہ ایسی صورت میں آپ کھلم کھلا یہ اعلان کر دیں کہ آج سے میرے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔
مولانا مودودی نے 1948ء میں جہادِ کشمیر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اسی قرآنی حکم کی روشنی میں کیا تھا‘ کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات کے ہوتے ہوئے یہ اقدام قرآن اور شریعت کی رو سے غلط ہے اور اسلام کے نام پر بننے والی مملکت کی حکومت کو ایسی پالیسی زیب نہیں دیتی۔ پاکستان کو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی پالیسی کا کھلم کھلا اعلان کرنا چاہیے۔ میز کے اوپر باہمی تعاون کے معاہدے کرنا‘ دوستی کے ہاتھ بڑھانا اور میز کے نیچے سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا دنیا داروں کا وطیرہ تو ہو سکتا ہے اہل ایمان کا طریقہ نہیں۔ مولانا مودودی کی یہ رائے اگرچہ اس آیت کے عین مطابق تھی مگر اُس وقت اُن کی اس رائے کے خلاف عوام میں خاصا اشتعال پیدا ہو گیا تھا۔
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ: ’’یقینا اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اور اگر تمہیں کسی قوم سے بدعہدی کا اندیشہ ہوتو تم وہ معاہدہ اُن کی طرف صاف سیدھے طریقے سے پھینک دو۔ یاد رکھو کہ اﷲ بد عہدی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا