وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
تشریحآیت ۲۴ وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ: ’’اور وہی ہے جس نے روک دیے ان کے ہاتھ تمہاری طرف بڑھنے سے اور تمہارے ہاتھ ان کی طرف بڑھنے سے مکہ کی وادی میں
مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ: ’’اس کے بعد کہ اُس نے تمہیں ان پر فتح دے دی تھی۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قریش ِمکہ ّکے حوصلے پست کر دیے گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے لیے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا اور انہوں نے اپنی تمام تر طاقت کے باوجود مسلمانوں کواپنے برابر کا فریق تسلیم کرتے ہوئے ان سے صلح کر لی۔ اس صلح میں اگلے سال مسلمانوں کے عمرہ کرنے اور اس دوران مکہ شہر کو تین دن کے لیے مکمل طور پر خالی کر دینے جیسی شرائط بھی شامل تھیں۔ دیکھا جائے تو قریش مکہ کے لیے مسلمانوں کو اپنا ہم پلہ ّسمجھتے ہوئے صلح کرنا اور پھر ایسی شرائط تسلیم کر لینا موت کا سامنا کرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ بہر حال اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندرونی طور پر اس قدر کمزور کر دیا تھا کہ وہ یہ سب کچھ قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اس کے مقابلے میں وہ مسلمانوں سے صرف ایک یہ بات منوا سکے کہ اس سال عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں تا کہ وقتی طور پر ان کی’’ناک‘‘ مکمل طور پر کٹنے سے بچ جائے۔
وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا: ’’اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
اور وہی اﷲ ہے جس نے مکہ کی وادی میں تمہارے ہاتھوں کو ان تک پہنچنے سے، اور اُن کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا، جبکہ وہ تمہیں اُن پر قابو دے چکا تھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اﷲ اُسے دیکھ رہا تھا
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ وَلَوْلا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاء مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَؤُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاء لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
تشریحآیت ۲۵ ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ: ’’وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں روکے رکھا مسجد ِحرام تک جانے سے اور قربانی کے جانور بھی روکے گئے اپنی جگہ پہنچنے سے۔
یہ ان جرائم کا تذکرہ ہے جن کا ارتکاب قریش مکہ نے اس پورے واقعے کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو احرام کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کے طواف سے روکا بلکہ ان کے قربانی کے جانور وں کو بھی قربان گاہوں تک نہ پہنچنے دیا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کی طرف بڑھنے سے روک دیا اور اس ممکنہ جنگ کو ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے میں جو حکمت کارفرما تھی اب اس کا ذکر ہو رہا ہے:
وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآء مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ اَنْ تَطَئُوْہُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْہُمْ مَّعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ: ’’اور اگر نہ ہوتے (مکہ میں موجود) ایسے مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے‘ اندیشہ تھا کہ تم لوگ انہیں بھی کچل دیتے تو ان کے بارے میں تم پر الزام آتا بے خبری میں (تو جنگ نہ روکی جاتی)۔
عین موقع پر جنگ کو روکنے میں دراصل یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ اس وقت تک مکہ میں بہت سے ایسے اہل ِ ایمان افراد موجود تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہجرت نہیں کر سکے تھے۔ اس میں ضعفاء بھی تھے‘مریض بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان لوگوں کا ذکر سورۃ النساء کے چودھویں رکوع میں بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی معذوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کر دے گا اور ہجرت نہ کر سکنے کی بنا پر ان سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی شہر میں موجودگی کی صورت میں جب جنگ کی چکی ّچلتی تو یہ بے گناہ لوگ بھی اس میں ِپس جاتے اور اُلٹا مسلمانوں پر ان سے متعلق الزام بھی آتا کہ انہوں نے اپنے ہی اہل ایمان ساتھیوں کو قتل کر دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ممکنہ جنگ کو روک دیا اور مسلمانو ں کو بغیر لڑے صلح کی شکل میں فتح دے دی۔
لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآء: ’’(جنگ اس لیے روکی گئی) تا کہ اللہ داخل کرے اپنی رحمت میں جس کو چاہے۔‘‘
لَوْ تَزَیَّلُوْا لَـعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا: ’’ اگر وہ (اہل ِایمان) علیحدہ ہو چکے ہوتے تو ان (اہل ّمکہ) میں سے جو کافر تھے ان کو ہم ایک دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیتے۔‘‘
اگر وہ کمزور اور معذور اہل ایمان اس وقت تک مکہ سے نکل چکے ہوتے تو ہم یہ جنگ ہونے دیتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کو ان کے جرائم کی بدترین سزا دلواتے۔
یہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر اِختیار کیا، اور تمہیں مسجدِ حرام سے روکا، اور قربانی کے جانوروں کو جو ٹھہرے ہوئے کھڑے تھے، اپنی جگہ پہنچنے سے روک دیا۔ اور اگر کچھ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں (مکہ میں ) نہ ہوتیں جن کے بارے میں تمہیں خبر بھی نہ ہوتی کہ تم اُنہیں پیس ڈالو گے، اور اُس کی وجہ سے بے خبری میں تم کو نقصان پہنچ جاتا (تو ہم ان کافروں سے تمہاری صلح کے بجائے جنگ کروادیتے، لیکن ہم نے جنگ کو اس لئے روکا) تاکہ اﷲ جس کو چاہے، اپنی رحمت میں داخل کردے۔ (البتہ) اگر وہ مسلمان وہاں سے ہٹ جاتے تو ہم ان (اہلِ مکہ) میں سے جو کافر تھے، اُنہیں دردناک سزادیتے
إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
تشریحآیت ۲۶ اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ: ’’جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت بٹھالی‘ جاہلیت کی حمیت‘‘
قریش مکہ نے اس موقع پر جس حمیت کا مظاہرہ کیا وہ سراسر حمیت جاہلی تھی۔ ان کے دلوں میں قوم پرستی‘ آباء پرستی اور روایت پرستی کا تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسی تعصب کی بنا پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کوعمرہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو اپنے باپ دادا کے دین سے ِپھر کر’’بے دین‘‘ ہو چکے تھے۔
فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ: ’’تو اللہ نے سکینت نازل کر دی اپنے رسولؐ پر اور اہل ایمان پر‘‘
وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا: ’’اور اُس نے لازم کر دیا ان پر تقویٰ کی بات کو اور وہ اس کے زیادہ حق دار بھی ہیں اور اس کے اہل بھی ہیں۔ ‘‘
وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا: ’’اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
(چنانچہ) جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں اُس حمیت کو جگہ دی جو جاہلیت کی حمیت تھی تو اﷲ نے اپنی طرف سے اپنے پیغمبر اور مسلمانوں پر سکینت نازل فرمائی، اور اُن کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا، اور وہ اسی کے زیادہ حق داراور اس کے اہل تھے، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
تشریحآیت ۲۷ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّئْ یَا بِالْحَقِّ: ’’اللہ نے اپنے رسول کو بالکل سچا خواب دکھایا حق کے ساتھ۔‘‘
یہ اُس خواب کا ذکر ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ نے عمرے کا قصد فرمایا تھا اور مسلمانوں کو ساتھ چلنے کے لیے ترغیب دی تھی۔ حضور نے خواب میں خود کو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور آپ نے اپنے اس خواب کا تذکرہ صحابہ سے سرعام کیا تھا۔ چونکہ رسول کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اس لیے جب صلح حدیبیہ کے نتیجے میں عمرہ اگلے سال پر ملتوی ہو گیا تو ایسی صورت میں حضور کے خواب کے بارے میں وضاحت ضروری تھی۔ مبادا کسی کے ذہن میں یہ شبہ جنم لیتا کہ ‘نعوذ باللہ‘ حضور کا خواب سچا نہیں تھا۔ اس ضمن میں جب حضور سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو کہا تھا ہم عمرہ کریں گے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ضرور اسی سال کریں گے۔ آیت زیر مطالعہ میں پیشگی خبر دی جا رہی ہے کہ تم لوگ اللہ کے رسول کے خواب کے عین مطابق عمرہ ادا کرو گے۔ چنانچہ اگلے ہی سال ۷ ہجری کو آپ نے مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ کیا۔ تاریخ میں یہ عمرہ ’’عمرۃ القضاء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ: ’’(اے مسلمانو!) تم لازماً داخل ہو گے مسجد الحرام میں ‘ان شا ء اللہ‘ پورے امن کے ساتھ‘‘
مُحَلِّقِیْنَ رُؤُوْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ: ’’اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بالوں کو ترشواتے ہوئے‘ (اُس وقت) تمہیں کوئی اندیشہ نہیں ہو گا۔‘‘
اگلے سال یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ اگلے سال جب مسلمان عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ میں داخل ہوئے تو پورا شہر خالی تھا۔ قریش اپنے گھروں کو چھوڑ کر تین دن کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔ اس دوران مسلمان مکہ میں مقیم رہے اور انہوں نے پورے اطمینان سے عمرہ ادا کیا۔
فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا: ’’تو اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے‘ تو اس کے علاوہ اس نے (تمہارے لیے) ایک قریب کی فتح بھی رکھی ہے۔‘‘
اس سے فتح خیبر مراد ہے جس کا ذکر اس سے پہلے آیت ۱۵ کے ضمن میں بھی ہو چکا ہے۔ یعنی اگلے سال جب تم لوگ قضا عمرہ ادا کرنے کے لیے جاؤ گے تو اس سے پہلے تم یہودیوں کے گڑھ خیبر کو فتح کر کے اس کے غنائم سمیٹ چکے ہو گے۔
اب وہ عظیم آیت آ رہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورۃ التوبہ میں (آیت ۳۳) بھی پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ الفاظ سورۃ الصف (۲۸ ویں پارے) کی آیت ۹ میں بھی آئیں گے۔ سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں یہ آیت جوں کی توں آئی ہے‘ جبکہ زیر مطالعہ سورت میں اس کا آخری حصہ (وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا) مختلف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا ہے جو واقعے کے بالکل مطابق ہے۔ تم لوگ ان شاء اﷲ ضرور مسجدِ حرام میں اس طرح امن وامان کے ساتھ داخل ہوگے کہ تم (میں سے کچھ) نے اپنے سروں کو بے خوف و خطر منڈوایا ہوگا، اور (کچھ نے) بال تراشے ہوں گے۔ اﷲ وہ باتیں جانتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہیں ۔ چنانچہ اُس نے وہ خواب پوراہونے سے پہلے ایک قریبی فتح طے کر دی ہے