وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
تشریح اب پانچویں رکوع میں قتل ِناحق، ملک میں فساد پھیلانے اور چوری ڈاکے جیسے جرائم کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اور پھر ان کی سزاؤں کا ذکر ہو گا۔
آیت 27: وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَـبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ: ،،اور (اے نبی) ان کو پڑ ھ کر سنائیے آدم کے دو بیٹوں کا قصہ حق کے ساتھ۔ ،،
اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا: ،،جبکہ ان دونوں نے قربانی پیش کی،،
فَتُـقُـبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُـتَقَـبَّـلْ مِنَ الْاٰخَرِ: ،،تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی، جبکہ دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔ ،،
آدم کے یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ہابیل بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل کاشت کار تھا۔ ان دونوں نے اللہ کے حضور قربانی دی۔ ہابیل نے کچھ جانور پیش کیے، جبکہ قابیل نے اناج نذر کیا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ نیچے اترتا تھا اور وہ قربانی کی چیز کو جلا کر بھسم کر دیتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے قربانی کو قبول فرما لیا۔
قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ: ،،اُس نے کہا میں تمہیں قتل کر کے رہوں گا۔ ،،
قابیل نے، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی، حسد کی آگ میں جل کر اپنے بھائی ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ: ،،اُس نے جواب دیا کہ اللہ تو پرہیزگاروں ہی سے قبول کرتا ہے۔ ،،
ہابیل نے کہا بھائی جان، اس میں میرا کیا قصورہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔
اور (اے پیغمبر !) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ ’’ میں تجھے قتل کر ڈالوں گا ‘‘ پہلے نے کہا کہ ’’ اﷲ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متقی ہوں
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ
تشریحآیت 28: لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُـلَنِیْ: ،،اگر آپ اپنا ہاتھ چلائیں گے مجھ پر مجھے قتل کرنے کے لیے،،
مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَـیْکَ لِاَقْـتُـلَکَ: ،،(تب بھی) میں اپنا ہاتھ نہیں چلاؤں گا آپ کو قتل کرنے کے لیے۔ ،،
یعنی اگر ایسا ہواتو یہ یکطرفہ قتل ہی ہوگا۔
اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ: ،،مجھے تو اللہ کا خوف ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔،،
اگر تم نے مجھے قتل کرنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا تب بھی میں تمہیں قتل کرنے کو اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اﷲ رب العالمین سے ڈرتا ہوں
إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ
تشریحآیت 29: اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓ اَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ: ،،میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تم ہی اپنے سر لے لو،،
فَـتَـکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ: ،،تو پھر تم ہو جاؤ گے جہنم والوں میں سے۔ ،،
اگر آپ اس انتہا تک پہنچ جائیں گے کہ مجھے قتل کر ہی دیں گے تو آپ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ میری خطاؤں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیں گے۔ ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنے والاگویا مقتول کے تمام گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر اُٹھا لیتا ہے۔ یعنی اگر آپ مجھے نا حق قتل کریں گے تو میرے گناہوں کا وبال بھی آپ کے سر ہو گااور میرے لیے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ البتہ اس جرم کی وجہ سے آپ جہنمی ہو جائیں گے۔
وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُاالظّٰلِمِیْنَ: ،،اور یہی بدلہ ہے ظالموں کا۔ ،،
میں تو یہ چاہتا ہوں کہ انجام کار تم اپنے اور میرے دونوں کے گناہ میں پکڑے جاؤ، اور دوزخیوں میں شامل ہو۔ اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ ‘‘
فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ
تشریحآیت 30: فَطَوَّعَتْ لَہ نَفْسُہ قَتْلَ اَخِیْہِ: ،،بالآخر اُس کے نفس نے آمادہ کر ہی لیا اسے اپنے بھائی کے قتل پر،،
ان الفاظ کے بین السطور اس کے ضمیر کی کش مکش کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ ایک طرف اللہ کا خوف، نیکی کا جذبہ، خون کا رشتہ اور دوسری طرف شیطانی ترغیب، حسد کی آگ اور نفسانی خواہش کی اُکساہٹ۔ اور پھر بالآخر اس اندرونی کشمکش میں اس کا نفس جیت ہی گیا۔
فَقَتَلَہ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ: ،،تو اس نے اسے قتل کر دیا اور ہو گیا تباہ ہونے والوں میں سے۔،،
آخرکار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر لیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہو گیا
فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ
تشریحآیت 31: فَـبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّـبْحَثُ فِی الْاَرْضِ: ،،تو اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کریدنے لگا،، ُ ّ
یہ پہلا خون تھا جو نسل ِ آدم میں ہوا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل تو کر دیا لیکن اب اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بھائی کی لاش کا کیا کرے، اسے کیسے dispose off کرے، تو اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیج دیا جو اُس کے سامنے اپنی چونچ سے زمین کھودنے لگا۔
لِیُرِیَہ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْأَۃَ اَخِیْہِ: ،،تاکہ (اللہ) اسے دکھا دے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔ ،،
کوے کے زمین کھودنے کے عمل سے اسے سمجھ آجائے کہ زمین کھود کر لاش کو دفن کیا جا سکتا ہے۔
قَالَ یٰــوَیْلَتٰٓی اَعَجَزْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْأۃَ اَخِیْ: ،،(یہ دیکھا تو) اُس نے کہا ہائے میری شامت! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا۔ ،،
افسوس مجھ پر! کیا میرے اندر اس کوے جیسی عقل بھی نہ تھی کہ یہ طریقہ مجھے خود ہی سوجھ جاتا۔
فَـاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ: ،،پھر وہ بہت پشیمان ہوا۔ ،،
اس احساس پر اس کے اندر بڑی شدید ندامت پیدا ہوئی۔
پھر اﷲ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دِکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چپھائے۔ (یہ دیکھ کر) وہ بولا ’’ہائے افسوس ! کیا میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ ‘‘ اس طرح بعدمیں وہ بڑا شرمندہ ہوا