أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا
تشریح آیت ۹: اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا: «کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم (تختی) والے اصحاب ہماری بہت عجیب نشانیوں میں سے تھے؟»
اب اصحاب ِکہف کے متعلق اس سوال کے جواب کا آغاز ہو رہا ہے جو یہود مدینہ نے قریش مکہ کے ذریعے حضور سے پوچھا تھا۔ کہف کے معنی غار کے ہیں اور رقیم سے مراد وہ تختی ہے جس پر اصحاب کہف کے حالات لکھ کر اسے غار کے دہانے پر لگا دیا گیا تھا۔ اس نسبت سے انہیں اصحاب کہف بھی کہا جاتا ہے اور اصحاب الرقیم بھی۔ مراد یہ ہے کہ تم لوگ شاید اصحاب کہف کے واقعہ کو ایک بہت غیر معمولی واقعہ اور ہماری ایک بڑی عجیب نشانی سمجھتے ہو، مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری تخلیق اور صناعی میں تو اس سے بھی بڑے بڑے عجائبات موجود ہیں۔
اس قصے کے بارے میں اب تک جو ٹھوس حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے: حضرت مسیح کی فلسطین میں بعثت کے وقت بظاہر یہاں ایک یہودی بادشاہ کی حکمرانی تھی مگر اس بادشاہ کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی اور عملی طور پر یہ پورا علاقہ رومن ایمپائر ہی کا حصہ تھا۔ رومی حکمران مذہباً بت پرست تھے جبکہ فلسطین کے مقامی باشندے اہل کتاب (یہودی) تھے۔ حضرت مسیح کے رفع سماوی کا واقعہ ۳۰ اور ۳۳ عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ اس کے بعد یہودیوں کی ایک بغاوت کے جواب میں رومی جنرل ٹائیٹس نے ۷۰ عیسوی میں یروشلم پر حملہ کر کے اس شہر کو بالکل تباہ و برباد کر دیا، ہیکل سلیمانی مسمار کر دیا گیا، یہودیوں کا قتل عام ہوا اور جو یہودی قتل ہونے سے بچ گئے انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ مقامی عیسائیوں کو اگرچہ علاقے سے بے دخل تو نہ کیا گیا مگر حضرت عیسیٰ کے پیروکار اور موحد ہونے کی وجہ سے انہیں رومیوں کی طرف سے اکثر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اسی حوالے سے رومی بادشاہ دقیانوس (Decius) کے دربار میں چند راسخ العقیدہ موحد نوجوانوں کی پیشی ہوئی۔ بادشاہ کی طرف سے ان نوجوانوں پر واضح کیا گیا کہ وہ اپنے عقائد کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کر لیں ورنہ انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ بادشاہ کی طرف سے انہیں اس فیصلے کے لیے مناسب مہلت دی گئی۔ اسی مہلت کے دوران انہوں نے شہر سے نکل کر کسی غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ لوگ غار میں پناہ گزیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان پر ایسی نیند طاری کر دی کہ وہ تقریباً تین سو سال تک سوتے رہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت: ۲۵۹ میں بھی اسی نوعیت کے ایک واقعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عزیر کو ان کی موت کے سو سال بعد زندہ کر دیا گیا) اوران کی نیند کے دوران ان کی کروٹیں بدلنے کا بھی باقاعدہ اہتمام رہا۔ جس غار میں اصحاب ِکہف سو رہے تھے وہ ایسی جگہ پر واقع تھی جہاں لوگوں کا آنا جانا بالکل نہیں تھا۔ اس غار کا دہانہ شمال کی جانب تھا جس کی وجہ سے اس کے اندر روشنی منعکس ہو کر تو آتی تھی، لیکن براہِ راست روشنی یا دھوپ نہیں آتی تھی۔ اس طرح کے غاروں کا ایک سلسلہ افسس شہر (موجودہ ترکی) کے علاقے میں پایا جاتا ہے جبکہ ہندوستان (ایجنٹا) میں بھی ایسے غار موجود ہیں۔
بعد ازاں قسطنطین (Constantine) نامی فرمانروا نے عیسائیت قبول کر لی اور اس کی وجہ سے پوری رومن ایمپائر بھی عیسائی ہو گئی۔ پھر ۴۰۰عیسوی کے لگ بھگ Theodosius کے عہد حکومت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو جگایا۔ جاگنے کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کا ایک سکہ دے کر کھانا لینے کے لیے شہر بھیجا اور ساتھ ہدایت کی کہ وہ محتاط رہے، ایسا نہ ہو ان کے غار میں چھپنے کی خبر بادشاہ تک پہنچ جائے۔ (وہ اپنی نیند کو معمول کی نیند سمجھ رہے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ تین سو سال تک سوئے رہے تھے۔) بہرحال کھانا لانے کے لیے جانے والا ان کا ساتھی اپنی تین سو سال پرانی وضع قطع اور کرنسی کی وجہ سے پکڑا گیا اور یوں ان کے بارے میں تمام معلومات لوگوں تک پہنچ گئیں۔ جب لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوا تو ہم مذہب ہونے کی وجہ سے عیسائی آبادی کی طرف سے ان کی بہت عزت افزائی کی گئی۔ اس کے بعد وہ لوگ غار میں پھر سے سو گئے یا اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کر دی۔ ان لوگوں کی طبعی موت کے بعد غار کے دہانے کو بند کر دیا گیا اور ایک تختی پر ان لوگوں کا احوال لکھ کر اسے اس جگہ پر نصب کر دیا گیا۔ اصحابِ کہف کا یہ قصہ گبن کی کتاب The Decline and fall of Roman Empire میں بھی Seven Sleepers کے عنوان سے موجود ہے۔ اس قصے کا ذکر چونکہ رومن لٹریچر میں تھا اور یہودی اِن تمام تفصیلات سے آگاہ تھے، اس لیے انہوں نے یہ سوال حضور سے امتحاناً پوچھ بھیجا تھا۔
کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ غار اور رقیم والے لوگ ہماری نشانیوں میں سے کچھ (زیادہ) عجیب چیز تھے؟
اِذْ اَوَى الْفِتْيَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
تشریح آیت ۱۰: اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَہْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا: «جبکہ ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور انہوں نے کہا: اے ہمار ے رب! تو ہمیں عطا فرما اپنے پاس سے رحمت اور آسان فرما دے ہمارے لیے ہمارے معاملات میں عافیت کا راستہ۔»
اپنے خاص خزانہ فضل سے ہمارے لیے رحمت کا بندوبست فرما دے۔
یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب اُن نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی، اور (اﷲ تعالیٰ سے دعاکرتے ہوئے) کہا تھا کہ : ’’ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمائیے، اور ہماری اس صورتِ حال میں ہمارے لئے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجئے۔‘‘
فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا
تشریح آیت ۱۱: فَضَرَبْنَا عَلٰٓی اٰذَانِہِمْ فِی الْْکَہْفِ سِنِیْنَ عَدَدًا: «تو ہم نے تھپکی دے دی ان کے کانوں پر غار میں کئی سال کے لیے۔»
یعنی ہم نے غار کے اندر متعدد سال تک انہیں سلائے رکھا۔ یہاں پر یہ بحث نہیں چھیڑی گئی کہ کتنے سال تک انہیں نیند کی حالت میں رکھا گیا۔
چنانچہ ہم نے اُن کے کانوں کو تھپکی دے کر کئی سال تک اُن کو غار میں سلائے رکھا
ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَيُّ الْحِزْبَيْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا
تشریح آیت ۱۲: ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا: «پھر ہم نے انہیں اٹھایا تا کہ ہم دیکھیں کہ دو گروہوں میں سے کس کو بہتر معلوم ہے کہ کتنا عرصہ وہ وہاں رہے تھے۔»
ان دو گروہوں سے کون لوگ مراد ہیں، اس کا ذکر آگے آئے گا۔
پھر ہم نے اُن کو جگایا، تاکہ یہ دیکھیں کہ ان کے دو گروہوں میں سے کونسا گروہ اپنے سوئے رہنے کی مدت کا زیادہ صحیح شمار کرتا ہے
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ ۭ اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنٰهُمْ هُدًى
تشریح آیت ۱۳: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَہُمْ بِالْحَقِّ: «ہم سنا رہے ہیں آپ کوان کا قصہ حق کے ساتھ۔»
یہ واقعہ جیسے وقوع پذیر ہوا تھا بالکل ویسے ہی ہم آپ کو بلا کم و کاست سنانے جا رہے ہیں۔
اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًی: «وہ چند نوجوان تھے جو ایمان لائے اپنے رب پر اور ہم نے خوب بڑھایا تھا انہیں ہدایت میں۔»
ہم تمہارے سامنے اُن کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں ۔ یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر اِیمان لائے تھے، اور ہم نے اُن کو ہدایت میں خوب ترقی دی تھی
وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا
تشریح آیت ۱۴: وَّرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اِذْ قَامُوْا: «اور ہم نے مضبوط کر دیا ان کے دلوں کو جب وہ (بادشاہ کے سامنے) کھڑے ہوئے»
فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا مِنْ دُوْنِہِ اِلٰہًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا: «تو انہوں نے کہا کہ ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم ہر گز نہیں پکاریں گے اُس کے سوا کسی اور کو معبود، (اگر ایسا ہوا) تب تو ہم بہت غلط بات کہیں گے۔»
جس طرح حضرت ابراہیم نے نمرود کے دربار میں ڈٹ کر حق بات کہی تھی ویسے ہی ان نوجوانوں نے بھی علی الاعلان کہا کہ ہم رب کائنات کو چھوڑ کر کسی دیوی یا دیوتا کو اپنا رب ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
اور ہم نے اُن کے دل خوب مضبوط کر دیئے تھے۔ یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب وہ اُٹھے، اور انہوں نے کہاکہ : ’’ ہمارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اُس کے سوا کسی کو معبود بنا کر ہر گز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یقینا انتہائی لغو بات کہیں گے
هَؤُلاء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّوْلا يَأْتُونَ عَلَيْهِم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا
تشریح آیت ۱۵: ہٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہِٓ اٰلِہَۃً: «ہماری اس قوم نے بنالیے ہیں اُس کے سوا دوسرے معبود۔»
لَوْلَا یَاْتُوْنَ عَلَیْہِمْ بِسُلْطٰنٍ بَـیِّنٍ: «تو کیوں نہیں پیش کرتے وہ ان کے بارے میں کوئی واضح دلیل؟»
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کوئی دلیل یا سند وہ اپنے اس دعوے کے ساتھ کیوں پیش نہیں کرتے؟
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا: «تو اُس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا!»
شاہی دربار میں اس تند و تیز مکالمے کے بعد جب انہیں چند دن کی مہلت کے ساتھ اپنا دین چھوڑنے یا موت کا سامنا کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا تو وہ آپس میں یوں مشورہ کرنے لگے:
یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اُ س پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا رکھے ہیں ۔ (اگر ان کا عقیدہ صحیح ہے تو) وہ اپنے معبودوں کے ثبوت میں کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے؟ بھلا اُس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اﷲ پر جھوٹ باندھے؟
وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحمته ويُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا
تشریح آیت ۱۶: وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ فَاْوُوْا اِلَی الْکَہْفِ یَنْشُرْلَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہِ ویُہَیِّئْ لَکُمْ مِّنْ اَمْرِکُمْ مِّرْفَقًا: «اور اب جبکہ تم نے خود کو اُن لوگوں سے اور جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں، ان سے علیحدہ کر لیا ہے تو اب کسی غار میں پناہ لے لو، تمہارا رب پھیلا دے گا تمہارے لیے اپنی رحمت اور تمہارے معاملے میں تمہارے لیے سہولت کا سامان پیدا فرما دے گا۔»
اور (ساتھیو !) جب تم نے اِن لوگوں سے بھی علیحدگی اختیار کر لی ہے، اور اُن سے بھی جن کی یہ اﷲ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں ، تو چلو اب تم اُس غار میں پناہ لے لو، تمہارا پروردگار تمہارے لئے اپنا دامنِ رحمت پھیلا دے گا، اور تمہارے کام میں آسانی کے اسباب مہیا فرمائے گا۔‘‘
وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
تشریح آیت ۱۷ وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَہْفِہِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ: «اور تم سور ج کو دیکھتے کہ جب وہ طلوع ہوتا تو اُن کی غار سے داہنی طرف ہٹ جاتا»
وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُہُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ: «اور جب وہ غروب ہوتا تو بائیں جانب ان سے کنی کترا جاتا»
یعنی اس غار کا منہ شمال کی طرف تھا جس کی وجہ سے سورج کی براہِ راست روشنی یا دھوپ اس میں دن کے کسی وقت بھی نہیں پڑتی تھی۔ ہمارے ہاں بھی دھوپ اور سائے کا یہی اصول کارفرماہے۔ سورج کسی بھی موسم میں شمال کی طرف نہیں جاتا۔ اسی اصول کے تحت کارخانوں وغیرہ کی بڑی بڑی عمارات میں یہاں north light shells کا اہتمام کیا جاتا ہے تا کہ ایسے shells سے روشنی تو بلڈنگ میں آئے مگر دھوپ براہِ راست نہ آئے۔
وَہُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ: «اور وہ اس کی کھلی جگہ میں (لیٹے ہوئے) تھے۔»
یعنی غار اندر سے کافی کشادہ تھی اور اصحاب کہف اس کے اندر کھلی جگہ میں سوئے ہوئے تھے۔
ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ: «یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔»
مَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ وَلِـیًّا مُّرْشِدًا: «جسے اللہ ہدایت دیتا ہے وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کر دے تو اُس کے لیے تم نہیں پاؤ گے کوئی مدد گار راہ پر لانے والا۔»
اور (وہ غار ایسا تھا کہ) تم سورج کو نکلتے وقت دیکھتے تووہ اُن کے غار سے دائیں طرف ہٹ کر نکل جاتا، اور جب غروب ہوتا تو اُن سے بائیں طرف کترا کر چلا جاتا، اور وہ اُس غار کے ایک کشادہ حصے میں (سوئے ہوئے) تھے۔ یہ سب کچھ اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جسے اﷲ ہدایت دیدے، وہی ہدایت پاتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اُس کا تمہیں ہر گز کوئی مددگار نہیں مل سکتا جو اُسے راستے پر لائے
وَتَحْسَبُهُمْ اَيْقَاظًا وَّهُمْ رُقُوْدٌ وَّنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ ۭ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
تشریح آیت ۱۸: وَتَحْسَبُہُمْ اَیْقَاظًا وَّہُمْ رُقُوْدٌ وَّنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ: «اور (اگر تم انہیں دیکھتے تو) تم سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے، اور ہم ان کی کروٹیں بھی بدلتے رہے دائیں اور بائیں»
گویا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ان کی دیکھ بھال کے لیے نرسنگ ڈیوٹی پر مامور کر رکھا تھا، جو وقفے وقفے سے ان کی کروٹیں بدلتے رہے تا کہ سالہا سال تک ایک ہی پہلو پر لیٹے رہنے سے وہ bed sores جیسی کسی تکلیف سے محفوظ رہیں۔
وَکَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ: «اور اُن کا کتا اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے (بیٹھا) تھا دہلیز پر»
اس دوران ان کا کتا اپنی اگلی دونوں ٹانگیں سامنے پھیلا کر کتوں کے بیٹھنے کے مخصوص انداز میں غار کے دہانے پر بیٹھا رہا۔
لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْہِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا: «اگر تم ان پرجھانکتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور تم پر ان کی طرف سے ہیبت طاری ہو جاتی۔»
ایک ویرانے میں اندھیری غار اور اُس کے سامنے اپنے بازو پھیلائے بیٹھا ہوا ایک خوفناک کتا! یہ ایک ایسا منظر تھا جسے جو بھی دیکھتا ڈر کے مارے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتا۔
تم اُنہیں (دیکھ کر) یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں ، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔ا ور ہم اُن کو دائیں اور بائیں کروٹ دِلواتے رہتے تھے، اور اُن کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے (بیٹھا) تھا۔ اگر تم اُنہیں جھانک کر دیکھتے تو اُن سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، اور تمہارے اندر اُن کی دہشت سماجاتی
وَكَذَلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءلُوا بَيْنَهُمْ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
تشریح آیت ۱۹: وَکَذٰلِکَ بَعَثْنٰہُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَہُمْ: «اور اسی طرح ہم نے انہیں اٹھایا تا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں۔»
قَالَ قَآئِلٌ مِّنْہُمْ کَمْ لَبِثْتُمْ: «ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ تم کتنا عرصہ یہاں رہے ہو گے؟»
قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ: «کچھ بولے کہ ہم رہے ہیں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ کچھ (دوسرے) بولے کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے تم کتنا عرصہ رہے ہو!»
جب کچھ ساتھیوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ انہوں نے ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت نیند میں گزارا ہے تو ان کے جواب پر کچھ دوسرے ساتھی بول پڑے کہ اس بحث کو چھوڑ دو، اللہ کو سب پتا ہے کہ تم لوگ یہاں کتنا عرصہ تک سوئے رہے ہو۔
فَابْعَثُوْٓا اَحَدَکُمْ بِوَرِقِکُمْ ہٰذِہِٓ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ: «اب تم بھیجو اپنے میں سے ایک (ساتھی) کو اپنے اس چاندی کے سکے کے ساتھ شہر کی طرف»
فَلْیَنْظُرْ اَیُّہَآ اَزْکٰی طَعَامًا فَلْیَاْتِکُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ: «تو وہ دیکھے کہ شہر کے کس حصے سے زیادہ پاکیزہ کھانا ملتا ہے اور وہ وہاں سے تمہارے لیے کچھ کھانا لے آئے۔»
ظاہر ہے کہ اپنے اعتقاد اور نظریے کے مطابق انہیں پاکیزہ کھانا ہی چاہیے تھا۔
وَلْیَتَلَطَّفْ: «اور وہ نرمی کا معاملہ کرے»
یعنی جو ساتھی کھانا لینے کے لیے جائے وہ لوگوں سے بات چیت اور لین دین کرتے ہوئے خصوصی طور پر اپنا رویہ نرم رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی سے جھگڑ پڑے اور اس طرح ہم سب کے لیے کوئی مسئلہ کھڑ ا ہو جائے۔
یہاں پر نوٹ کر لیجیے کہ قرآن کے حروف کی گنتی کے اعتبار سے لفظ وَلْیَتَلَطَّفْ کی «ت» پر قرآن کا نصف اوّل پورا ہو گیا ہے اور اس کے بعد لفظ «ل» سے نصف ثانی شروع ہو رہا ہے۔
وَلَا یُشْعِرَنَّ بِکُمْ اَحَدًا: «اور وہ آگاہ نہ کر دے تمہارے بارے میں کسی کو۔»
اور (جیسے ہم نے اُنہیں سلایا تھا) اسی طرح ہم نے اُنہیں اُٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں ۔ اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا : ’’ تم اس حالت میں کتنی دیر رہے ہو گے؟‘‘ کچھ لوگوں نے کہا : ’’ ہم ایک دن یاایک دن سے کچھ کم (نیند میں ) رہے ہوں گے۔‘‘ دوسروں نے کہا :’’ تمہارا رَبّ ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر اس حالت میں رہے ہو۔ اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو، وہ جاکر دیکھ بھال کرے کہ اس کے کونسے علاقے میں زیادہ پاکیزہ کھانا (مل سکتا) ہے، پھر تمہارے پاس وہاں سے کچھ کھانے کو لے آئے، اور اُسے چاہیئے کہ ہوشیاری سے کام کرے، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے
إِنَّهُمْ إِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فِي مِلَّتِهِمْ وَلَن تُفْلِحُوا إِذًا أَبَدًا
تشریح آیت ۲۰: اِنَّہُمْ اِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوْکُمْ اَوْ یُعِیْدُوْکُمْ فِیْ مِلَّتِہِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا: «کیونکہ اگر انہوں نے تم پر قابو پا لیا تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں واپس لے جائیں گے اپنے دین میں، اور تب تو تم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکو گے۔»
اگر انہوں نے تمہیں مجبور کر دیا کہ تم پھر سے ان کا دین قبول کر لو تو ایسی صورت میں تم ہمیشہ کے لیے ہدایت سے دور ہو جاؤ گے۔
کیونکہ اگر ان (شہر کے) لوگوں کو تمہاری خبر مل گئی تو یہ تمہیں پتھراؤ کر کے ہلاک کر ڈالیں گے، یا تمہیں اپنے دین میں واپس آنے کے لئے مجبور کریں گے، اور ایسا ہوا تو تمہیں کبھی فلاح نہیں مل سکے گی۔‘‘
وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيْهَا اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا ۭ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ ۭ قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓي اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًا
تشریح آیت ۲۱: وَکَذٰلِکَ اَعْثَرْنَا عَلَیْہِمْ: «اور اس طرح ہم نے مطلع کر دیا (لوگوں کو) ان پر»
چنانچہ اصحاب کہف کا ایک ساتھی جب کھانا لینے کے لیے شہر گیا تو اپنے لباس، حلیے اور کرنسی وغیرہ کے باعث فوری طور پر اسے پہچان لیا گیا کہ وہ موجودہ زمانے کا انسان نہیں ہے۔ پھر جب اس سے تفتیش کی گئی تو سارا راز کھل گیا۔ اس وقت اگرچہ اس واقعہ کو تین سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا مگر اس کے باوجود یہ بات ابھی تک لوگوں کے علم میں تھی کہ فلاں بادشاہ کے ڈر سے اس شہر سے سات آدمی کہیں روپوش ہو گئے تھے اور پوری مملکت میں تلاش بسیار کے باوجود کہیں ان کا سراغ نہ مل سکا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی لوگوں کے علم میں تھی کہ اس پورے واقعے کو ایک تختی پر لکھ کر ریکارڈ کے طور پر شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا گیا تھا۔ لہٰذا اصحاب کہف کے ساتھی سے ملنے والی معلومات کی تصدیق کے لیے جب مذکورہ تختی ریکارڈ سے نکلوائی گئی تو اس پر اس واقعہ کی تمام تفصیلات لکھی ہوئی مل گئیں اور یوں یہ واقعہ پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے آ گیا۔
لِیَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیْبَ فِیْہَا: «تا کہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کے بارے میں ہرگز کوئی شک نہیں۔»
یہ واقعہ گویا بعث بعد الموت کے بارے میں ایک واضح دلیل تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے تین سو سال تک ان لوگوں کو سلائے رکھا اور پھر اٹھا کھڑا کیا تو اُس کے لیے مردوں کا دوبارہ زندہ کرنا کیونکر ممکن نہیں ہو گا؟
اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَہُمْ اَمْرَہُمْ: «جب وہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے ان کے معاملے میں»
اس کے بعد اصحابِ کہف تو اپنی غار میں پہلے کی طرح سو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر حقیقی موت وارد کر دی، لیکن لوگوں کے درمیان اس بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ ان کے بارے میں حتمی طور پر کیا معاملہ کیا جائے۔
فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْہِمْ بُنْیَانًا رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ: «چنانچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ تعمیر کر دو ان پر ایک عمارت (بطور یادگار)، ان کا رب ان سے بہتر واقف ہے۔»
کچھ لوگوں نے رائے دی کہ اس معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ایک شاندار یادگار تعمیر کی جانی چاہیے۔
قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْہِمْ مَّسْجِدًا: «جو لوگ غالب آئے اپنی رائے کے اعتبار سے انہوں نے کہا کہ ہم بنائیں گے ان (کی غار) پر ایک مسجد۔»
اور یوں ہم نے اُن کی خبر لوگوں تک پہنچا دی، تاکہ وہ یقین سے جان لیں کہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے، نیز یہ کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، اُ س میں کوئی شک نہیں ۔ (پھروہ وقت بھی آیا) جب لوگ ان کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے، چنانچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان پر ایک عمارت بنادو۔ ان کا رَبّ ہی ان کے معاملے کو بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جن لوگوں کو ان کے معاملات پر غلبہ حاصل تھا، انہوں نے کہا کہ : ’’ ہم تو ان کے اُوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے۔‘‘
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَيْبِ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ ڢ فَلَا تُمَارِ فِيْهِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاهِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا
تشریح آیت ۲۲: سَیَـقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًا بِالْغَیْبِ وَیَقُوْلُْوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ: «اب یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے، اُن کا چوتھا اُن کا کتا تھا، اور کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اُن کا چھٹا ان کا کتا تھا، یہ سب تیر تکے چلا رہے ہیں اندھیرے میں، اور کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ سات تھے اور ان کا آٹھواں اُن کا کتا تھا۔»
قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ: «آپ کہیے: میرا رب بہتر جانتا ہے ان کی تعداد کو، نہیں جانتے ان (کے معاملے) کو مگر بہت تھوڑے لوگ۔»
قرآن مجید میں ان کی تعداد کے بارے میں صراحت تو نہیں کی گئی مگر اکثر مفسرین کے مطابق بین السطور میں آخری رائے کے درست ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اس میں ایک نکتہ تو یہ ہے کہ پہلے فقرے: ثَلٰـثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ. اور دوسرے فقرے: خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ. کے درمیان میں «و» نہیں ہے، جبکہ تیسرے فقرے میں: سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ. کے درمیان میں «و» موجود ہے۔ چنانچہ پہلے دونوں کلمات کے مقابلے میں تیسرے کلمہ کے بیان میں «و» کی وجہ سے زیادہ زور ہے۔
اس ضمن میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب وہ لوگ جاگے تھے تو اُن میں سے ایک نے سوال کیا تھا: کَمْ لَبِثْتُمْ: کہ تم یہاں کتنی دیر سوئے رہے ہو؟ اس سوال کا جواب قرآن حکیم میں بایں الفاظ نقل ہوا ہے: قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ: انہوں نے کہا کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم عرصہ تک سوئے رہے ہیں۔ یہاں پر قَالُوْا چونکہ جمع کا صیغہ ہے اس لیے یہ جواب دینے والے کم از کم تین لوگ تھے، جبکہ اس سوال کے جواب میں ان کے جن ساتھیوں نے دوسری رائے دی تھی وہ بھی کم از کم تین ہی تھے، کیونکہ ان کے لیے بھی قَالُوْا جمع کا صیغہ ہی استعمال ہوا ہے: قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ۔ اس طرح ان کی تعداد سات ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ یعنی ایک پوچھنے والا، تین لوگ ایک رائے دینے والے اور ان کے جواب میں تین لوگ دوسری رائے کا اظہار کرنے والے۔
اس کے علاوہ قدیم رومن لٹریچر میں بھی جہاں ان کا ذکر ملتا ہے وہاں ان کی تعداد سات ہی بتائی گئی ہے۔ قبل ازیں گبن کی کتاب کا حوالہ بھی دیا جا چکا ہے جس میں Seven Sleepers کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں جس بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے میں بحث کرنے اور جھگڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے:
فَلَا تُمَارِ فِیْہِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا: «تو (اے نبی!) آپ ان کے بارے میں جھگڑا مت کریں سوائے سرسری بحث کے، اور نہ ہی آپ پوچھئے ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے۔»
یعنی جو بات دعوتِ دین اور اقامت دین کے حوالے سے اہم نہ ہو اس میں بے مقصد چھان بین کرنا اور بحث و نزاع میں پڑنا، گویا وقت ضائع کرنے اور اپنی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے، اور چوتھا اُن کا کتا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اور چھٹا اُن کا کتا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں ۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہہ دو کہ : ’’ میرا رَبّ ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں ۔‘‘ لہٰذا ان کے بارے میں سر سری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئی بحث نہ کرو، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو