وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ
تشریحآیت ۲۰ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَآ اَرَی الْہُدْہُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ: ’’اور اُس نے پرندوں کے لشکر کا معائنہ کیا تو کہا کہ کیا بات ہے مجھے ُہد ہد نظر نہیں آ رہا؟ کیا وہ غیر حاضر ہے؟‘‘
اور انہوں نے (ایک مرتبہ) پرندوں کی حاضری لی تو کہا : ’’ کیا بات ہے، مجھے ہد ہد نظر نہیں آرہا، کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے؟‘‘
لأعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
تشریحآیت ۲۱ لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّہٗٓ : ’’میں اُسے بہت سخت سزا دوں گا، یا اُسے ذبح کر ڈالوں گا‘‘
اس اجتماعی حاضری (parade) کے موقع سے غیر حاضر ہو کر اس نے بہت بڑا جرم کیا ہے اور اسے اس جرم کی سزا ضرور بھگتنا ہو گی۔
اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ : ’’یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل لے کر آئے۔‘‘
ہاں اگر وہ کوئی ٹھوس عذر پیش کر کے اپنی اس غیر حاضری کا جواز ثابت کر دے تو سزا سے بچ سکتا ہے۔
میں اُسے سخت سزا دوں گا، یا اُسے ذبح کر ڈالوں گا، اِلّا یہ کہ وہ میرے سامنے کوئی واضح وجہ پیش کرے۔‘‘
فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ
تشریحآیت ۲۲ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ : ’’تو کچھ زیادہ دیر نہیں گزری (کہ ُہدہد پہنچ گیا)‘‘
فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ: ’’تواُس نے کہا کہ میں نے وہ کچھ معلوم کیا ہے جو آپ کو معلوم نہیں، اور میں آپؑ کے پاس قومِ سبا سے متعلق یقینی معلومات لے کر آیا ہوں۔‘‘
قومِ سبا یمن کے علاقے میں آباد تھی اور اُس وقت بلقیس نامی ایک ملکہ اس قوم پر حکمران تھی۔
پھر ہد ہد نے زیادہ دیر نہیں لگائی، اور (آکر) کہا کہ : ’’ میں نے ایسی معلومات حاصل کی ہیں جن کا آپ کو علم نہیں ہے، اور میں ملکِ سبأ سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں
إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ
تشریحآیت ۲۳ اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَۃً تَمْلِکُہُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ : ’’میں نے ایک عورت کو ان پر حکومت کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اُسے ہر شے دی گئی ہے‘‘
دنیا بھر کی نعمتیں اسے حاصل ہیں اور ہر طرح کا ساز و سامان اس کے پاس جمع ہے۔
وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ: ’’اور اُس کا تخت بہت عظیم الشان ہے۔‘‘
میں نے وہاں ایک عورت کو پایا جو اُن لوگوں پر بادشاہت کر رہی ہے، اور اُس کو ہر طرح کا سازوسامان دیا گیا ہے، اور اُس کا ایک شاندار تخت بھی ہے
وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ
تشریحآیت ۲۴ وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ : ’’اور میں نے دیکھا اُس کو اور اُس کی قوم کو کہ وہ سجدہ کرتے ہیں سورج کو اللہ کو چھوڑ کر‘‘
وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ: ’’اور شیطان نے اُن کے لیے اُن کے اعمال کو ّمزین کر دیا ہے‘‘
فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ: ’’اور انہیں روک دیا ہے سیدھے راستے سے، تو اب وہ راستہ نہیں پا رہے۔‘‘
شیطان نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور اب انہیں راہِ ہدایت کا شعور نہیں رہا۔
میں نے اُس عورت اور اُس کی قوم کو پایا ہے کہ وہ اﷲ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدے کرتے ہیں ، اور شیطان نے اُن کو یہ سجھا دیا ہے کہ اُن کے اعمال بہت اچھے ہیں ، چنانچہ اُس نے انہیں صحیح راستے سے روک رکھا ہے اور اس طرح وہ ہدایت سے اتنے دور ہیں
أَلاَّ يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ
تشریحآیت ۲۵ اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ: ’’ کہ وہ سجدہ نہیں کرتے اللہ کو، جو نکالتا ہے ہر چھپی چیز کو آسمانوں اور زمین میں سے اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔‘‘
کہ اﷲ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کو چھپی ہوئی چیزوں کو باہر نکال لاتا ہے، اور تم جو کچھ چھپاؤ، اور جو کچھ ظاہر کرو، سب کو جانتا ہے
اللَّهُ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
تشریحآیت ۲۶ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ: ’’وہ اللہ کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور جو بہت بڑے عرش کا مالک ہے۔‘‘
اﷲ تو وہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، (اور) جو عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ ‘ ‘
قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
تشریحآیت ۲۷ قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ: ’’سلیمانؑ نے کہا: ہم عنقریب دیکھیں گے کہ تم نے سچ کہا ہے یا تم جھوٹے ہو۔‘‘
ہم معلوم کر لیں گے کہ واقعی تم ایک سچی خبر لے کر آئے ہو یا اپنی غیر حاضری کی سزا سے بچنے کے لیے جھوٹا بہانہ بنا رہے ہو۔
سلیمان نے کہا : ’’ ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تم نے سچ کہا ہے، یا جھوٹ بولنے والوں میں تم بھی شامل ہوگئے ہو
اذْهَب بِّكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ
تشریحآیت ۲۸ اِذْہَبْ بِّکِتٰبِیْ ہٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ: ’’میرا یہ خط لے جاؤ، اسے ان کے پاس جا کر ڈال آؤ، پھر ان سے الگ ہو کر دیکھتے رہو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔‘‘
چنانچہ وہ ُہد ہد حضرت سلیمان کا خط لے گیا اور جا کر ملکہ کے آس پاس یا شاید اس کی خواب گاہ میں پھینک دیا۔ ملکہ نے یہ غیر معمولی خط پڑھا تو فوری طور پر قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مشورے کے لیے دربار میں طلب کر لیا۔
میرا یہ خط لے کر جاؤ، اور اُن کے پاس ڈال دینا، پھر الگ ہٹ جانا، اور دیکھنا کہ وہ جواب میں کیا کرتے ہیں ۔‘‘
قَالَتْ يَا أَيُّهَا المَلأ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ
تشریحآیت ۲۹ قَالَتْ یٰٓــاَیُّہَا الْمَلَؤُا اِنِّیْٓ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیْمٌ: ’’اُس نے کہا کہ اے (میری قوم کے) سردارو! میری طرف ایک بہت عزت والا خط ڈالا گیا ہے۔‘‘
(چنانچہ ہد ہد نے ایسا ہی کیا اور) ملکہ نے (اپنے درباریوں سے) کہا : ’’ قوم کے سردارو ! میرے سامنے ایک باوقار خط ڈالا گیا ہے
إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
تشریحآیت ۳۰ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: ’’یہ (خط) سلیمان کی طرف سے ہے اور اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوا ہے۔‘‘
یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سورت کے اندر اس کے متن میں شامل ہے۔ باقی ہر جگہ یہ سورتوں کے آغاز میں لکھی گئی ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ سورتوں کے آغاز میں جہاں جہاں بھی بسم اللہ لکھی گئی ہے کیا اسے ایک آیت مانا جائے گا یا جتنی مرتبہ لکھی گئی ہے اتنی آیات شمار ہوں گی۔
وہ سلیمان کی طرف سے آیا ہے، اور وہ اﷲ کے نام سے شروع کیا گیا ہے جو رحمن و رحیم ہے
أَلاَّ تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
تشریحآیت ۳۱ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ: ’’یہ کہ میرے مقابلے میں تم لوگ سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔‘‘
(اُس میں لکھا ہے) کہ :’’ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو، اور میرے پاس تابع دار بن کر چلے آؤ۔‘‘
قَالَتْ يَا أَيُّهَا المَلأ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ
تشریحآیت ۳۲ قَالَتْ یٰٓــاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْٓ اَمْرِیْ مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ: ’’اُس نے کہا : اے سردارو! میرے اس معاملے میں آپ لوگ مجھے مشورہ دیں۔ میں کسی معاملے میں بھی حتمی فیصلہ نہیں کرتی جب تک آپ لوگ موجود نہ ہوں۔‘‘
ملکہ نے کہا : ’’ قوم کے سردارو ! جو مسئلہ میرے سامنے آیا ہے، اُس میں مجھے فیصلہ کن مشورہ دو۔ میں کسی مسئلے کا حتمی فیصلہ اُس وقت تک نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس موجود نہ ہو۔‘‘
قَالُوا نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالأَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ
تشریحآیت ۳۳ قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّۃٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ: ’’انہوں نے کہا :ہم طاقتور بھی ہیں اور زبردست جنگی صلاحیت والے بھی‘‘
وَّالْاَمْرُ اِلَیْکِ فَانْظُرِیْ مَاذَا تَاْمُرِیْنَ: ’’اور فیصلے کا اختیار تو آپ ہی کے پاس ہے، چنانچہ آپ خود دیکھ لیں کہ کیا حکم دیتی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا : ’’ ہم طاقت ور اور ڈٹ کر لڑنے والے لوگ ہیں ، آگے معاملہ آپ کے سپرد ہے، اب آپ دیکھ لیں کہ کیا حکم دیتی ہیں ۔‘‘
قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ
تشریحآیت ۳۴ قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا: ’’اُس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں‘‘
اس نازک موقع پر ملکہ نے بڑی دانش مندانہ بات کی کہ بادشاہوں کا ہمیشہ سے ہی دستور رہا ہے کہ وہ جس شہر یا علاقے کو فتح کرتے ہیں اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔
وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ: ’’اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں، اور وہ ایسے ہی کرتے ہیں۔‘‘
ملکہ کی یہ بات بھی بہت اہم اور حقیقت پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’خضر راہ‘‘ کے ذیلی عنوان ’’سلطنت‘‘ کے تحت جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا مرکزی خیال انہوں نے اسی آیت سے اخذ کیا ہے اور پہلے شعر میں اس آیت سے تلمیح بھی استعمال کی ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے :
آ بتاؤں تجھ کو رَمز آیۂ اِنَّ الْمُلُوْک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادو گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری!
برعظیم پاک وہند میں مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ یہاں مسلمان حکمران تھے جبکہ ہندو ان کے محکوم تھے۔ انگریزوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے ہندوؤں کو تو کچھ خاص فرق نہ پڑا، ان کے تو صرف حکمران تبدیل ہوئے، پہلے وہ مسلمانوں کے غلام تھے، اب انگریزوں کے غلام بن گئے، لیکن مسلمان تو گویا آسمان سے زمین پر پٹخ دیے گئے۔ وہ حاکم سے محکوم بن گئے۔ اب اگر انگریزوں کو کچھ خطرہ تھا تو مسلمانوں سے تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضرور کوشش کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی ممکنہ بغاوت کی پیش بندی کے لیے انہیں ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ طریقہ اپنایا کہ معاشرے کے گھٹیا لوگوں کو تو خطابات اور جاگیروں سے نواز کر اعلیٰ مناصب پر بٹھا دیا اور ان کے مقابلے میں معززین اور شرفاء کو ہر طرح سے ذلیل و رسوا کیا۔ ایسے تمام جاگیردار انگریزوں کا حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اپنی قوم کے مفادات کے خلاف اپنے آقاؤں کی معاونت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔
یہی حکمت ِعملی مصر میں فرعون نے بھی اپنا رکھی تھی۔ اس نے بھی بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو اپنے دربار میں جگہ دے رکھی تھی۔ یہ مراعات یافتہ لوگ فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی قوم کی مخبری کرتے اور اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف فرعون کے معاون و مدد گار بنتے۔ سورۂ یونس کی آیت: ۸۳ میں اس صورتِ حال کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے: (فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہِ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلاَئِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ) ’’پس نہیں ایمان لائے موسیٰ پر مگر کچھ نوجوان اُس کی قوم میں سے، فرعون اور اپنے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ وہ انہیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں‘‘۔ گویا بنی اسرائیل کے عام لوگوں پر اپنے ان سرداروں کا خوف طاری تھا جو فرعون کی وفاداری میں اپنی ہی قوم پر ظلم و ستم روا رکھتے تھے۔
ملکہ بولی : ’’ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں گھس آتے ہیں تو اُسے خراب کر ڈالتے ہیں ، اور اُس کے باعزت باشندوں کو ذلیل کر کے چھوڑتے ہیں ، اور یہی کچھ یہ لوگ بھی کریں گے
وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ
تشریحآیت ۳۵ وَاِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ: ’’تو میں ان کی طرف اپنے ایلچی کچھ تحائف کے ساتھ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ وہ کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں۔‘‘
حضرت سلیمان کی خدمت میں قیمتی تحائف بھیج کر وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آیا دنیوی مال و دولت کا حصو ل ہی ان کا مقصد و مدعا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر وہ کچھ اور چاہتے ہیں۔
اور میں ان کے پاس ایک تحفہ بھیجتی ہوں ، پھر دیکھوں گی کہ ایلچی کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں؟‘‘
فَلَمَّا جَاء سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ
تشریحآیت ۳۵ وَاِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ: ’’تو میں ان کی طرف اپنے ایلچی کچھ تحائف کے ساتھ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ وہ کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں۔‘‘
حضرت سلیمان کی خدمت میں قیمتی تحائف بھیج کر وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آیا دنیوی مال و دولت کا حصو ل ہی ان کا مقصد و مدعا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر وہ کچھ اور چاہتے ہیں۔
آیت ۳۶ فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ فَمَآ اٰتٰنِیَ اللّٰہُ خَیْرٌ مِّمَّآ اٰتٰـٹـکُمْ: ’’تو جب وہ (وفد) آیا سلیمان کے پاس، اُس نے کہا کہ کیا تم میری اعانت کرنا چاہتے ہو مال و دولت سے؟ تو جو کچھ مجھے اللہ نے دے رکھا ہے وہ کہیں بہتر ہے اُس سے جو اُس نے تمہیں دیا ہے۔‘‘
بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ: ’’ اپنے ان تحائف سے تم خود ہی خوش رہو۔‘‘
چنانچہ جب ایلچی سلیمان کے پاس پہنچا تو اُنہوں نے کہا : ’’ کیا تم مال سے میری امداد کرنا چاہتے ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اﷲ نے جو کچھ مجھے دیا ہے، وہ اُس سے کہیں بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے، البتہ تم ہی لوگ اپنے تحفے پر خوش ہوتے ہو
ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لاَّ قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ
تشریحآیت۳۷ اِرْجِعْ اِلَیْہِمْ فَلَنَاْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِّنْہَآ اَذِلَّۃً وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ: ’’تم لوٹ جاؤ ان کی طرف، تو ہم ان پر ایسے لشکر وں سے حملہ آور ہوں گے جن کا مقابلہ ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا، اور ہم نکال باہر کریں گے انہیں اس ملک سے ذلیل کر کے اور وہ خوار ہو جائیں گے۔‘‘
یعنی انہیں یا تو ہماری پہلی بات ماننا پڑے گی کہ وہ مسلم (مطیع) ہو کر ہمارے پاس حاضر ہو جائیں، ورنہ ہم ان پر لشکر کشی کریں گے۔
اُن کے پاس واپس جاؤ، کیونکہ اب ہم اُن کے پاس ایسے لشکر لے کر پہنچیں گے جن کے مقابلے کی اُن میں تاب نہیں ہوگی، اور اُنہیں وہاں سے اس طرح نکالیں گے کہ وہ ذلیل ہوں گے، اور ماتحت بن کر رہیں گے۔‘‘
قَالَ يَا أَيُّهَا المَلأ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
تشریحآیت ۳۸ قَالَ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ: ’’ (پھر اپنے درباریوں سے مخاطب ہو کر) سلیمان نے کہا: اے درباریو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لائے گا اس سے پہلے کہ وہ لوگ فرماں بردار ہو کر میرے پاس پہنچیں؟‘‘
یعنی آپ کو یقین تھا کہ ملکہ سبا اظہارِ اطاعت کے لیے ضرور حاضر ہو گی۔ چنانچہ آپ نے چاہا کہ اس کے آنے سے پہلے اس کا تخت یہاں پہنچ جائے اور اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کر کے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ اپنے تخت کو پہچان پاتی ہے یا نہیں۔
سلیمان نے کہا : ’’ اے اہلِ دربار ! تم میں سے کو ن ہے جو اُس عورت کا تخت ان کے تابع دار بن کر آنے سے پہلے ہی میرے پاس لے آئے؟‘‘
قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ
تشریحآیت ۳۹ قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ: ’’جنوں میں سے ایک دیو نے کہا کہ میں اسے آپ کے پاس لے آتا ہوں اس سے پہلے کہ آپؑ اپنی اس مجلس سے اٹھیں، اور میں یقینا اس کام کے لیے طاقت بھی رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں۔‘‘
جس طرح انسانوں میں کوئی کمزور ہوتا ہے اور کوئی طاقتور، اسی طرح ِجنوں میں بھی چھوٹے بڑے جن ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک طاقتور قوی ہیکل دیو نے دعویٰ کیا کہ آپؑ کے دربار برخواست کرنے سے پہلے میں وہ تخت لا کر آپؑ کی خدمت میں حاضر کیے دیتا ہوں۔
ایک قوی ہیکل جن نے کہا : ’’ آپ اپنی جگہ سے اُٹھے بھی نہ ہوں گے کہ میں اُس سے پہلے ہی اُسے آپ کے پاس لے آؤں گا، اور یقین رکھئے کہ میں اس کام کی پوری طاقت رکھتا ہوں ، (اور) امانت دار بھی ہوں ۔‘‘
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
تشریحآیت ۴۰ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ: ’’کہنے لگا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لے آتا ہوں اس سے قبل کہ آپؑ کی نگاہ پلٹ کر آپؑ کی طرف آئے۔‘‘
یعنی میں آپ ؑ کے پلک جھپکنے سے پہلے اس کو حاضر کیے دیتا ہوں۔ یہ جس شخص کا ذکر ہے اس کے بارے میں مفسرین کہتے ہیں کہ وہ حضرت سلیمان کے وزیر آصف بن برخیاہ تھے، اور یہ کہ ان کے پاس کتب سماویہ اور اللہ تعالیٰ کے ناموں سے متعلق ایک خاص علم تھا جس کی تاثیر سے انہوں نے اس کام کو ممکن کر دکھایا۔ ہمارے پاس اس موضوع پر نہ تو کوئی مرفوع حدیث ہے اور نہ ہی ان اسمائے الہٰیہ میں ایسی کوئی تاثیر ثابت ہوتی ہے جو ہمیں حضور کی طرف سے بتائے گئے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ایمان ہے کہ قرآن میں یہ واقعہ جس طرح مذکور ہے بالکل ویسے ہی وقوع پذیر ہوا ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اس کی تفصیلات میں دلچسپی لینا ہمارے لیے مفید ہوتا تو حضور لازماً وضاحت فرما دیتے کہ اس شخصیت کے پاس کس کتاب کا کون سا علم تھا۔ اور اگر آپؐ کی طرف سے ایسی کچھ ہدایات نہیں دی گئیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں اس بارے میں مزید کسی کھوج ُکرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔ چنانچہ اس اعتبار سے یہ آیت متشابہات میں سے ہے۔
البتہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ کے الفاظ میں سائنسی اور ٹیکنیکل علم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں کوئی ایسی ترکیب معلوم ہو جس کے ذریعے سے سائنسی طور پر ایسا کرنا ممکن ہوا ہو۔ بہر حال سائنسی نقطہ نظر سے ایسا ہونا کوئی ناممکن بات بھی نہیں ہے۔ آج سائنس جس انداز اور جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کے نتیجے میں ممکن ہے بہت جلد ایسی ٹیکنالوجی حاصل کر لی جائے جس کے ذریعے سے کسی مادی چیز کو atoms میں تحلیل کرنا اور پھر ان atoms کو چشم زدن میں دوسری جگہ منتقل کر کے ان سے اس چیز کو اسی حالت میں دوبارہ ٹھوس شکل دے دینا ممکن ہو جائے۔
فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ: ’’پھر جب اُس نے دیکھا اسے اپنے سامنے رکھا ہوا‘‘
یعنی وہ صاحب اپنے دعوے کے مطابق اس تخت کو واقعی پلک جھپکنے سے پہلے لے آئے اور جب حضرت سلیمان نے اسے اپنے سامنے دیکھا تو بے اختیار آپ اللہ کی حمد و ثنا کرنے لگے۔
قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ: ’’اُس ؑنے کہا کہ یہ میرے رب ہی کے فضل سے ہے‘‘
کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا تو اپنے وزیر کے کمال کو بھی اپنا ہی کمال قرار دیتا، لیکن حضرت سلیمان نے اسے اللہ کا فضل قرار دیا اور اس کا شکر ادا کیا۔ بندگی کا کامل نمونہ بھی یہی ہے کہ انسان بڑی سے بڑی کامیابی کو اپنا کمال سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا انعام جانے اور اس پر اس کا شکر ادا کرے۔
لِیَبْلُوَنِیْٓ ءَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ: ’’تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ کیا میں شکر ادا کرتا ہوں یا نا شکری کرتاہوں۔‘‘
وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ: ’’اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی (بھلے کے) لیے کرتا ہے۔‘‘
وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ: ’’اور جو کوئی نا شکری کرتا ہے تو میرا رب یقینا بے نیاز ہے، بہت کرم کرنے والا۔‘‘
جس کے پاس کتا ب کا علم تھا، وہ بول اُٹھا : ’’میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی اُسے آپ کے پاس لے آتا ہوں ۔‘‘ چنانچہ جب سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا : ’’ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو کوئی شکر کرتا ہے، تو وہ اپنے ہی فائدے کیلئے شکر کرتا ہے، اور اگر کوئی ناشکری کرے تو میرا پروردگار بے نیاز ہے، کریم ہے۔‘‘
قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لا يَهْتَدُونَ
تشریحآیت ۴۱ قَالَ نَکِّرُوْا لَہَا عَرْشَہَا: ’’سلیمانؑ نے کہا کہ اس کے لیے اس کے تخت کی ہیئت ذرا بدل دو‘‘
کہ ملکہ کو آزمانے کے لیے تخت کی ظاہری ہیئت میں تھوڑی بہت تبدیلی کر دو۔
نَنْظُرْ اَتَہْتَدِیْٓ اَمْ تَکُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَہْتَدُوْنَ: ’’ہم دیکھیں کہ وہ پہچان پاتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہوتی ہے جو نہیں پہچان پاتے۔‘‘
سلیمان نے (اپنے خدام سے) کہا کہ : ’’ اس ملکہ کے تخت کو اس کیلئے اجنبی بنادو، دیکھیں وہ اُسے پہچانتی ہے، یا وہ اُن لوگوں میں سے ہے جو حقیقت تک نہیں پہنچتے؟‘‘
فَلَمَّا جَاءتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ
تشریحآیت ۴۲ فَلَمَّا جَآءَتْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَ: ’’پھر جب وہ آئی تو (اس سے) کہا گیا کہ کیا اسی طرح کا ہے آپ کا تخت؟ اُس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے! ‘‘
چنانچہ اس نے اپنے تخت کو پہچان لیا۔ یعنی وہ واقعی ایک ذہین اور سمجھ دار عورت تھی۔ اس سے پہلے آیت: ۴۳ میں فاتح بادشاہوں کے بارے میں اس کا تبصرہ بھی اس کی ذہانت اور دانش مندی کا ثبوت ہے۔
وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ: ’’اور ہمیں اس سے پہلے ہی علم حاصل ہو چکا ہے اور ہم اسلام لا چکے ہیں۔‘‘
یعنی میرے تخت کا یہاں پہنچ جانا اب میرے لیے کوئی بہت بڑی حیرت کی بات نہیں۔ آپؑ کا اللہ کے ہاں جو مقام و مرتبہ ہے اس کے بارے میں مجھے بہت پہلے ہی علم ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے ہم مسلمان ہو کر آپؑ کی اطاعت قبول کر چکے ہیں۔
غرض جب وہ آئی تو اُس سے پوچھا گیا : ’’ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟‘‘ کہنے لگی : ’’ ایسا لگتا ہے کہ یہ تو بالکل وہی ہے۔ ہمیں تو اس سے پہلے ہی (آپ کی سچائی کا) علم عطاہوگیا تھا، اور ہم سر جھکا چکے تھے۔‘‘
وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ إِنَّهَاكَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ
تشریحآیت ۴۳ وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ: ’’اور سلیمانؑ نے اُسے روک دیا (ا س سے) جس کو وہ پوجتی تھی اللہ کے سوا۔‘‘
اِنَّہَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ: ’’وہ ایک کافر قوم میں سے تھی۔‘‘
اور (اب تک) اُس کو (ایمان لانے سے) اس بات نے روک رکھا تھا کہ وہ اﷲ کے بجائے دوسروں کی عبادت کرتی تھی، اور ایک کافر قوم سے تعلق رکھتی تھی
قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
تشریحآیت ۴۴ قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ: ’’اُس سے کہا گیا کہ اب محل میں داخل ہو جاؤ! ‘‘
فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا: ’’تو جب اُس نے اس (کے فرش) کو دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔‘‘
قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ: ’’سلیمانؑ نے کہا: یہ تو ایسا محل ہے جو مرصع ّہے شیشوں سے۔‘‘
یعنی وہ شیشے کا چکنا فرش تھا اور ملکہ نے جب اس میں اپنا عکس دیکھاتو اسے پانی سمجھ کر پنڈلیوں سے کپڑا اوپر اٹھا لیا کہ شاید آگے جانے کے لیے اس پانی سے ہو کر گزرنا ہے۔ بہر حال حضر ت سلیمان نے اسے اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔ اس سے دراصل اسے احساس دلانا مقصود تھا کہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے رکھی ہیں، وہ تمہارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہیں۔
قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: ’’اُس نے کہا: اے میرے پروردگار! یقینا میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ کی اطاعت اختیار کی ہیجو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
حضرت سلیمان کا واقعہ یہاں پر اختتام پذیر ہوا۔ سورت کا یہ حصہ قصص النبییّن کے انداز میں ہے۔ اس کے بعد حضرت صالح اور حضرت لوط کے واقعات میں انباء الرسل کا انداز پایا جاتا ہے۔
اُس سے کہا گیا کہ : ’’ اس محل میں داخل ہو جاؤ،‘‘ اُس نے جو دیکھا تو یہ سمجھی کہ یہ پانی ہے، اس لئے اُس نے (پائینچے چڑھا کر) اپنی پنڈلیاں کھول دیں ۔ سلیمان نے کہا کہ : ’’ یہ تو محل ہے جو شیشوں کی وجہ سے شفاف نظر آرہا ہے۔‘‘ ملکہ بول اُٹھی : ’’ میرے پروردگار ! حقیقت یہ ہے کہ میں نے (اب تک) اپنی جان پر ظلم کیا ہے، اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ اﷲ رَبّ العالمین کی فرماں برداری قبول کر لی ہے۔‘‘