وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا
تشریح اس رکوع میں ذوالقرنین کے بارے میں یہودِ مدینہ کے سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اکثر مفسرین ذوالقرنین سے نا واقف تھے۔ چنانچہ تیرہ سو سال تک عام طور پر سکندر اعظم ہی کو ذوالقرنین سمجھا جاتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں ذوالقرنین کی فتوحات کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے یہ انداز سکندر اعظم کی فتوحات سے ملتا جلتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذوالقرنین کی سیرت کا وہ نقشہ جو قرآن نے پیش کیا ہے اس کی سکندر اعظم کی سیرت کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں۔
بہر حال جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذوالقرنین قدیم ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس کا لقب تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایران کے علاقے میں دو الگ الگ خود مختار مملکتیں قائم تھیں۔ ایک کا نام پارس تھا جس سے «فارس» کا لفظ بنا ہے اور دوسرے کا نام «مادا» تھا۔ کیخورس یا سائرس نے ان دونوں مملکتوں کو ملا کر ایک ملک بنا دیا اور یوں سلطنت ایران کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔ دو مملکتوں کے فرمانروا ہونے کی علامت کے طور پر اس نے اپنے تاج میں دو سینگ لگا رکھے تھے اور اس طرح اس کا لقب ذوالقرنین (دو سینگوں والا) پڑ گیا۔
آیت ۸۳: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ قُلْ سَاَتْلُوْاعَلَیْکُمْ مِّنْہُ ذِکْرًا: «اور یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہیے کہ ابھی میں آپ لوگوں کو اس کا حال بتاتا ہوں۔»
ذوالقرنین کے بارے میں جدید تحقیق کو اہل علم کے حلقے میں متعارف کرانے کا سہرا مولانا ابو الکلام آزاد کے سر ہے۔ انہوں نے اپنی تفسیر «ترجمان القرآن» میں اس موضوع پر بہت تفصیل سے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ قدیم ایران کا بادشاہ کیخورس یا سائرس ہی ذوالقرنین تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی تحقیق کی بنیاد ان معلومات پر ہے جو شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایک کھدائی کے دوران دستیاب ہوئی تھیں۔ اس کھدائی کے دوران اس عظیم فاتح بادشاہ کا ایک مجسمہ بھی دریافت ہوا تھا اور مقبرہ بھی۔ اس کھدائی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر رضا شاہ پہلوی نے اُس کی ڈھائی ہزار سالہ برسی منانے کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ دریافت شدہ مجسمے کے سر پر جو تاج تھا اس میں دو سینگ بھی موجود تھے جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ایران کا یہی بادشاہ (کیخورس یا سائرس) تھا جو تاریخ میں ذوالقرنین کے لقب سے مشہور ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے خصوصی طور پر یہ سوال کیوں پوچھا تھا اور ذوالقرنین کی شخصیت میں ان کی اس دلچسپی کا سبب کیا تھا؟ اس سوال کا جواب ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ملتا ہے۔ جب ۸۷ قبل مسیح کے لگ بھک عراق کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کر کے یروشلم کو تباہ کیا تو اس شہر کی اکثریت کو تہ تیغ کر دیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو وہ اپنی فوج کے ساتھ بابل (Babilonia) لے گیا، جہاں یہ لوگ ڈیڑھ سو سال تک اسیری کی حالت میں رہے۔
جب ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس (آئندہ سطور میں انہیں «ذوالقرنین» ہی لکھاجائے گا) نے ایران کو متحد کرنے کے بعد اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو سب سے پہلے عراق کو فتح کیا۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ نقشے کو ذہن میں رکھا جائے تو فلسطین، اسرائیل، شرق اردن، مغربی کنارہ اور لبنان کے ممالک پر مشتمل پورے علاقے کو اُس زمانے میں شامِ عرب یا شام اور اس سے مشرق میں واقع علاقے کو عراقِ عرب یا عراق کہا جاتا تھا، جبکہ عراق کے مزید مشرق میں ایران واقع تھا۔ عراق پر قبضہ کرنے کے بعد ذوالقرنین نے بابل میں اسیر یہودیوں کو آزاد کر دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر اپنا تباہ شدہ شہر یروشلم دوبارہ آباد کر لیں۔ چنانچہ حضرت عزیر کی قیادت میں یہودیوں کا قافلہ بابل سے واپس یروشلم آیا۔ انہوں نے اپنے اس شہر کو پھر سے آباد کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی از سر نو تعمیر کیا۔ اس پس منظر میں یہودی ذوالقرنین کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور اسی سبب سے ان کے بارے میں انہوں نے حضور سے یہ سوال پوچھا تھا۔
ذوالقرنین کی فتوحات کے سلسلے میں تین مہمات کا ذکر تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ ان مہمات میں ایران سے مغرب میں بحیره روم (Mediterranian) تک پورے علاقے کی تسخیر، مشرق میں بلوچستان اور مکران تک لشکرکشی اور شمال میں بحیره خَزَر (Caspian Sea) اور بحیره اسود (Black Sea) کے درمیانی پہاڑی علاقے کی فتوحات شامل ہیں۔ ذوالقرنین کا یہ سلسلہ فتوحات حضرت عمر کے دورِ خلافت کی فتوحات کے سلسلے سے مشابہ ہے۔ حضرت عمر کے دور میں بھی جزیرہ نمائے عرب سے مختلف سمتوں میں تین لشکروں نے پیش قدمی کی تھی، ایک لشکر شام اور پھر مصر گیا تھا، دوسرے لشکر نے عراق کے بعد ایران کو فتح کیا تھا، جبکہ تیسرا لشکر شمال میں کوہ قاف (Caucasus) تک جا پہنچا تھا۔
قدیم روایات میں ذوالقرنین کے بارے میں کچھ ایسی معلومات بھی ملتی ہیں کہ ابتدائی عمر میں وہ ایک چھوٹی سی مملکت کے شہزادے تھے۔ ان کے اپنے ملک میں کچھ ایسے حالات ہوئے کہ کچھ لوگ ان کی جان کے درپے ہو گئے۔ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور کچھ عرصہ صحرا میں روپوش رہے۔ اسی عرصے کے دوران ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زرتشت ہی اللہ کے نبی ہوں اور انہی کی تعلیمات سے انہوں نے استفادہ کیا ہو۔ بہر حال قرآن نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے وہ ایک نیک اور صالح بندۂ مومن کا کردار ہے اور اس کردار کی خصوصیات تاریخی اعتبار سے اس زمانے کے کسی اور فاتح حکمران پر منطبق نہیں ہوتیں۔
اور یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ : ’’ میں ان کا کچھ حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں ۔‘‘
إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا
تشریح آیت ۸۴: اِنَّا مَکَّنَّا لَہُ فِی الْاَرْضِ وَاٰتَیْنٰـہُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سَبَبًا: «ہم نے اسے زمین میں تمکن عطا کیا تھا اور اُسے ہر طرح کے اسباب ووسائل مہیا کیے تھے۔»
واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو زمین میں اقتدار بخشا تھا، اور اُنہیں ہر کام کے وسائل عطا کئے تھے
فَأَتْبَعَ سَبَبًا
تشریح آیت ۸۵: فَاَتْبَعَ سَبَبًا : «تو اُس نے ایک (مہم کا) سر وسامان کیا۔»
جس کے نتیجے میں وہ ایک راستے کے پیچھے چل پڑے
حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا
تشریح آیت ۸۶: حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ: «یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچا»
یہ ذوالقرنین کی مغربی علاقوں پر لشکر کشی کا ذکر ہے جب وہ پیش قدمی کرتے ہوئے بحیره روم (Mediterranian Sea) کے ساحل تک جا پہنچے۔ چونکہ اُس زمانے میں ان لوگوں کو پوری دنیا کا نقشہ معلوم نہیں تھا اس لیے وہ یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم اس سمت میں دنیا یا زمین کی آخری سر حدوں تک پہنچ گئے ہیں اور اس سے آگے بس سمندر ہی سمندر ہے۔ وہاں ساحل پر کھڑے ہو کر انہیں سورج بظاہر سمندر میں غروب ہوتا ہوا نظر آیا اور اس طرح وہ اس جگہ کو مَغْرِبَ الشَّمْسِ (سورج کے غروب ہونے کی جگہ) سمجھے۔
وَجَدَہَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ: «اُس نے اسے غروب ہوتے ہوئے پایا ایک گدلے چشمے میں»
اس سے Aegean Sea مراد ہے جس کا پانی بہت گدلا ہے۔
وَّوَجَدَ عِنْدَہَا قَوْمًا: «اور اُس نے پایا وہاں ایک قوم کو۔»
یعنی اس علاقے کو جب انہوں نے فتح کر لیا تو وہاں بسنے والی قوم ان کی رعایا بن گئی۔
قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْہِمْ حُسْنًا: «ہم نے کہا: اے ذوالقرنین! تم چاہو تو انہیں سزا دو اور چاہو تو ان (کے بارے) میں حسن سلوک کا معاملہ کرو۔»
یعنی آپ نے اس علاقے کو بزورِ بازو فتح کیا ہے، اب یہاں کے باشندے آپ کے رحم و کرم پر ہیں، آپ کو ان پر مکمل اختیار ہے۔ آپ چاہیں تو ان پر سختی کریں اور آپ چاہیں تو ان کے درمیان حسن سلوک کی روایت قائم کریں۔ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے براہِ راست ذوالقرنین کو مخاطب کرکے فرمائی، لیکن ضروری نہیں کہ حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہو۔ اگر تو وہ نبی تھے (واللہ اعلم) تو یہ ممکن بھی ہے، ورنہ اس سے مراد القاء یا الہام بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے سورۃ النحل (آیت: ۶۸) میں شہد کی مکھی کی طرف وحی کیے جانے کا ذکرہے۔
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈُوبنے کی جگہ پہنچے، تو انہیں دِکھائی دیا کہ وہ ایک دلدل جیسے (سیاہ) چشمے میں ڈوب رہا ہے، اور وہاں انہیں ایک قوم ملی۔ ہم نے (ان سے) کہا: ’’ اے ذُوالقرنین ! (تمہارے پاس دو راستے ہیں :) یا تو ان لوگوں کو سزا دو، یا پھر ان کے معاملے میں اچھا رویہ اختیار کرو۔‘‘
قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا
تشریح آیت ۸۷: قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہُ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہِ فَیُعَذِّبُہُ عَذَابًا نُّکْرًا: «اُس نے کہا: جس نے ظلم کیا ہم اسے سزا دیں گے، پھر وہ لوٹایا جائے گا اپنے رب کی طرف اور وہ اسے بہت سخت عذاب دے گا۔»
یہاں ظلم سے مراد کفر اور شرک بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا : ’’ ان میں سے جو کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے گا، اُسے تو ہم سزا دیں گے، پھر اُسے اپنے رَبّ کے پاس پہنچا دیا جائے گا، اور وہ اُسے سخت عذاب دے گا
وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا
تشریح آیت ۸۸: وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُ جَزَآءَ الْحُسْنٰی وَسَنَقُوْلُ لَہُ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا: «اور جو کوئی ایمان لایا اور اُس نے نیک اعمال کیے تو اُس کے لیے ہے اچھی جزا، اور اُس سے ہم بات کریں گے اپنے معاملے میں نرمی سے۔»
یعنی اس مفتوحہ علاقہ میں اپنی رعایا کے اہل ایمان نیک لوگوں سے ہم تمام معاملات میں نرمی سے کام لیں گے اور خراج وغیرہ کی وصولی کے سلسلے میں ان پر سختی نہیں کریں گے۔
البتہ جو کوئی ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو وہ بدلے کے طور پر اچھے انجام کا مستحق ہو گا، اور ہم بھی اُس کو اپنا حکم دیتے وقت آسانی کی بات کہیں گے۔‘‘
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
تشریح آیت ۸۹: ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا: «پھر اُس نے ایک (اور مہم کا) سر وسامان کیا۔»
مغربی مہم سے فارغ ہونے کے بعد ذوالقرنین نے مشرقی علاقوں کی طرف پیش قدمی کا منصوبہ بنایا۔
اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے
حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْرًا
تشریح آیت ۹۰: حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ: «یہاں تک کہ وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پر پہنچ گیا»
اس مہم کے سلسلے میں تاریخی طور پر مکران کے علاقے تک ذوالقرنین کی پیش قدمی ثابت ہے۔ (واللہ اعلم!) ممکن ہے ساحل مکران پر کھڑے ہو کر بھی انہوں نے محسوس کیا ہو کہ وہ اس سمت میں بھی زمین کی آخری حد تک پہنچ گئے ہیں۔
وَجَدَہَا تَطْلُعُ عَلٰی قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْْ لَّہُمْ مِّنْ دُوْنِہَا سِتْرًا: «اُس نے اس کو طلوع ہوتے پایا ایک ایسی قوم پر جس کے لیے ہم نے اس (سورج) کے مقابل کوئی اوٹ نہیں رکھی تھی۔»
اس زمانے میں یہ علاقہ Gadrusia کہلاتا تھا۔ یہاں ایسے وحشی قبائل آباد تھے جوزمین پر صرف دیواریں کھڑی کر کے اپنے گھر بناتے تھے اور اس زمانے تک ان کے تمدن میں گھروں پر چھتیں ڈالنے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جسے ہم نے اُس (کی دُھوپ) سے بچنے کیلئے کوئی اوٹ مہیا نہیں کی تھی
كَذَلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا
تشریح آیت ۹۱: کَذٰلِکَ: « (پھر) ایسا ہی ہوا۔»
پھر یہاں بھی ویسا ہی معاملہ ہوا جیسا کہ پہلی مہم کے سلسلے میں ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل فتح عطا فرمائی اور علاقے میں آباد قبائل کے معاملات میں نرمی یا سختی کرنے کا پورا اختیار دیا۔ یہاں بھی ذوالقرنین نے ظالم اور شریر لوگوں کے ساتھ سختی جبکہ نیک اور شریف لوگوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْہِ خُبْرًا: «اور ہم پوری طرح باخبر تھے اُس کے احوال سے۔»
جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا اور جن حالات سے اس کو سابقہ پیش آیا ہم اس سے پوری طرح باخبر تھے۔
واقعہ اسی طرح ہوا، اور ذُو القرنین کے پاس جو کچھ (سازوسامان) تھا، ہمیں اُس کی پوری پوری خبر تھی
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
تشریح آیت۹۲ ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا: «پھر اُس نے ایک (اور مہم کا) سر وسامان کیا۔»
اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے
حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لاَّ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلاً
تشریح آیت ۹۳: حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ: «یہاں تک کہ جب وہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا»
«سد» دیوار کو کہتے ہیں۔ دو دیواروں سے مراد یہاں دو پہاڑی سلسلے ہیں۔ داہنی طرف مشرق میں بحیره کیسپین تھا اور دوسری طرف بحیره اسود۔ ان دونوں سمندروں کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ دو پہاڑی سلسلے متوازی چلتے ہیں۔ اور ان پہاڑی سلسلوں کی درمیانی گزر گاہ سے شمالی علاقوں کے وحشی قبائل (یاجوج وماجوج) اس علاقے پر حملہ آور ہوتے تھے۔
وَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمَا قَوْمًا لَّا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ قَوْلًا: «اُس نے پایا اُن دونوں سے ورے ایک قوم (کے افراد) کو جو کوئی بات سمجھ نہیں سکتے تھے۔»
گویا یہ بھی ایک غیر متمدن قوم تھی۔ اس قوم کے افراد ذوالقرنین اور ان کے ساتھیوں کی زبان سے قطعاً نا آشنا تھے اور حملہ آور لشکر کے لوگ بھی اس مفتوحہ قوم کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے۔ مگر پھر بھی انہوں نے کسی نہ کسی طرح سے ذوالقرنین کے سامنے اپنا مدعا بیان کر ہی دیا:
یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو انہیں ان پہاڑوں سے پہلے کچھ لوگ ملے جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھتے
قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا
تشریح آیت ۹۴: قَالُوْا یٰـذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ: «انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! یا جوج اور ماجوج زمین میں بہت فساد مچانے والے لوگ ہیں»
فَہَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلٰٓی اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ سَدًّا: «تو کیا ہم آپ کو کچھ خراج ادا کریں کہ اس کے عوض آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں؟»
یعنی آپ ان پہاڑوں کے درمیان واقع اس واحد قدرتی گزر گاہ کو بند کر دیں تا کہ یا جوج وماجوج ہم پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔ یہ وہی تصور یا اصول تھا جس کے تحت آج کل دریاؤں پر ڈیم تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یعنی دو متوازی پہاڑی سلسلوں کے درمیان اگر دریا کی گزرگاہ ہے تو کسی کو مناسب مقام پر مضبوط دیوار بنا کر پانی کا راستہ روک دیا جائے تا کہ دریا ایک بہت بڑی جھیل کی شکل اختیار کر لے۔
یہ یا جوج ماجوج کون ہیں؟ ان کے بارے میں جاننے کے لیے نسل انسانی کی قدیم تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ قدیم روایات کے مطابق حضرت نوح کے بعد نسل انسانی آپ کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث سے چلی تھی۔ ان میں سے سامی نسل تو بہت معروف ہے۔ قومِ عاد، قوم ثمود اور حضرت ابراہیم سب سامی نسل میں سے تھے۔ حضرت یافث کی اولاد کے لوگ وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے کو عبور کر کے شمال کی طرف چلے گئے۔ وہاں سے ان کی نسل بڑھتے بڑھتے شمالی ایشیا اور یورپ کے علاقوں میں پھیل گئی۔ چنانچہ مشرق میں چین اور ہند چینی کی yellow races، مغرب میں روس اور سکنڈے نیوین ممالک کی اقوام، مغربی یورپ کے Anglo Saxons، مشرقی یورپ میں خصوصی طور پر شمالی علاقوں اور صحرائے گوبی کے علاقوں کی تمام آبادی حضرت یافث کی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ تورات میں حضرت یافث کے بہت سے بیٹوں کے نام ملتے ہیں۔ ان میں Mosc, Tobal, Gog & Magog وغیرہ قابل ذکر ہیں (ممکن ہے روس کا شہر ماسکو، حضرت یافث کے بیٹے ماسک نے آباد کیا ہو)۔ اسی طرح Baltic Sea اور Baltic States کا نام غالباً Tobal کے نام پر ہے۔ بہر حال یورپ کی اینگلو سیکسن اقوام اور تمام Nordic Races یاجوج ماجوج ہی کی نسل سے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ غیر متمدن اور وحشی لوگ تھے جن کا پیشہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھا۔ وہ اپنے ملحقہ علاقوں پر حملہ آور ہوتے، قتل و غارت کا بازار گرم کرتے اور لوٹ مار کر کے واپس چلے جاتے۔ ان کی اس غارت گری کی جھلک موجودہ دنیا نے بھی دیکھی جب Anglo Saxons نے ایک سیلاب کی طرح یورپ سے نکل کر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایشیا اور افریقہ کو نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ بعد ازاں مختلف عوامل کی بنا پر انہیں ان علاقوں سے بظاہر پسپا تو ہونا پڑا مگر حقیقت میں دنیا کے بہت سے ممالک پر بالواسطہ اب بھی ان کا قبضہ ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے ان کی اسی بالواسطہ حکمرانی کو مضبوط کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
قربِ قیامت میں ان قوموں کی ایک اور یلغار ہونے والی ہے۔ اس کی تفصیلات احادیث اور روایات میں اس طرح آئی ہیں کہ قیامت سے قبل دنیا ایک بہت ہولناک جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ اس جنگ کو احادیث میں «الملحمۃ العظمٰی» جبکہ بائبل میں Armageddon کا نام دیا گیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کا علاقہ اس جنگ کا مرکزی میدان بنے گا۔ اس جنگ میں ایک طرف عیسائی دنیا اور تمام یورپی اقوام ہوں گی اور دوسری طرف مسلمان ہوں گے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک عظیم لیڈر امام مہدی کی صورت میں عطا کرے گا۔ امام مہدی عرب میں پیدا ہوں گے اور وہ مجدد ہوں گے۔ پھر کسی مرحلے پر حضرت عیسیٰ کا نزول ہو گا۔ خراسان کے علاقے سے مسلمان افواج ان کی مدد کو جائیں گی۔ پھر اس جنگ کا خاتمہ اس طرح ہو گا کہ حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کر دیں گے، یہودیوں کا خاتمہ ہو جائے گا اورتمام عیسائی مسلمان ہو جائیں گے۔ یوں اسلام کو عروج ملے گا اور دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی۔ (اللہ تعالیٰ مسلمانانِ پاکستان کو توفیق دے کہ اس سے پہلے وہ یہاں نظام خلافت قائم کر لیں اور ہمسایہ علاقہ خراسان سے جو فوجیں امام مہدی کی مدد کے لیے روانہ ہوں ان میں ہمارے لوگ بھی شامل ہوں۔)
جب ہولناک جنگ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی تو اس کے بعد یاجوج ماجوج کی بہت بڑی یلغار ہو گی۔ میرے خیال میں یہ لوگ چین اور ہند چینی وغیرہ علاقوں کی طرف سے حملہ آور ہوں گے۔ یہ لوگ Armageddon میں حصہ نہیں لیں گے بلکہ اس کے بعد اس علاقے پر یلغار کر کے تباہی مچائیں گے۔ سورۃ الانبیاء کی آیات: ۹۴، ۹۷ اور ۹۸ میں اُن کی اس یلغار کا ذکر قرب قیامت کے واقعات کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا : ’’ اے ذُو القرنین ! یاجوج اور ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں ۔ تو کیا ہم آپ کو کچھ مال کی پیش کش کر سکتے ہیں ، جس کے بدلے آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار بنا دیں؟‘‘
قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا
تشریح آیت ۹۵: قَالَ مَا مَکَّنِّیْ فِیْہِ رَبِّیْ خَیْرٌ: «اُس نے کہا: جو کچھ مجھے دے رکھا ہے اس میں میرے رب نے وہ بہت بہتر ہے»
کہ مجھے تمہارے خراج وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے بہتر مال تو میرے رب نے مجھے پہلے ہی عطا کر رکھا ہے۔ بہر حال تمہارے اس مسئلے کو میں حل کیے دیتا ہوں۔ اس جملے سے ذوالقرنین کے کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔
فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ اَجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ رَدْمًا: «البتہ تم لوگ میری مدد کرو قوت (محنت) کے ذریعے سے، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔»
دیوار بنانے کے لیے جو مادی اسباب ووسائل درکار ہیں وہ میں مہیا کر لوں گا۔ آپ لوگ اس سلسلے میں محنت و مشقت اور افرادی قوت (man power) کے ذریعے میرا ہاتھ بٹاؤ۔
ذوالقرنین نے کہا : ’’ اﷲ نے مجھے جو اِقتدار عطا فرمایا ہے، وہی (میرے لئے) بہتر ہے۔ لہٰذا تم لوگ (ہاتھ پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو، تو میں تمہارے اور اُن کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا
آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا
تشریح آیت ۹۶: اٰ تُوْنِیْ زُبَرَالْحَدِیْدِ: «لاؤ میرے پاس تختے لوہے کے۔»
حَتّٰیٓ اِذَا سَاوٰی بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ: «یہاں تک کہ جب اُس نے برابر کر دیا دونوں اونچائیوں کے درمیان (کی جگہ) کو»
جب لوہے کے تختوں کو جوڑ کر انہوں نے دونوں پہاڑوں کے درمیانی درے میں دیوار کھڑی کر دی تو:
قَالَ انْفُخُوْا: «اُس نے کہا: اب آگ دہکاؤ!»
اس نے بڑے پیمانے پر آگ جلا کر ان تختوں کو گرم کرنے کا حکم دیا۔
حَتّٰیٓ اِذَا جَعَلَہُ نَارًا: «یہاں تک کہ جب بنا دیا اس نے اس کو آگ (کی مانند)»
جب لوہے کے وہ تختے گرم ہو کر سرخ ہو گئے تو:
قَالَ اٰ تُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا: «اُس نے کہا: لاؤ میرے پاس میں ڈال دوں اس پر پگھلا ہوا تانبا۔»
اور یوں ذوالقرنین نے لوہے کے تختوں اور پگھلے ہوئے تانبے کے ذریعے سے ایک انتہائی مضبوط دیوار بنا دی۔ اس دیوار کے آثار بحیره کیسپین کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ دار یال اور دربند کے درمیان اب بھی موجود ہیں۔ یہ دیوار پچاس میل لمبی، انتیس فٹ اونچی اور دس فٹ چوڑی تھی۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے لوہے اور تانبے کی اتنی بڑی (مصر کے اسوان ڈیم سے بھی بڑی جسے اَسَدّ الاعلٰی کہا جاتا ہے) دیوار تعمیر کرنا یقینا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔
مجھے لوہے کی چادریں لادو۔‘‘ یہاں تک کہ جب انہوں نے (درمیانی خلا کو پاٹ کر) دونوں پہاڑی سروں کو ایک دوسرے سے ملادیا تو کہا کہ : ’’ اب آگ دہکاؤ۔‘‘ یہاں تک کہ جب اس (دیوار) کو لال انگارا کر دیا تو کہا کہ : ’’ پگھلا ہوا تانبا لاؤ، اب میں اس پر اُنڈیلوں گا۔ ‘ ‘
فَمَا اسْطَاعُوا أَن يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا
تشریح آیت ۹۷: فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ یَّظْہَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہُ نَقْبًا: «اب نہ تو وہ (یاجوج ماجوج) اس کے اوپر چڑھ سکیں گے، اور نہ ہی اس میں نقب لگا سکیں گے۔»
چنانچہ (وہ دیوار ایسی بن گئی کہ) یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھنے کی طاقت رکھتے تھے، اور نہ اُس میں کوئی سوراخ بنا سکتے تھے