لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
تشریح آیت 226: لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ : «جو لوگ اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے۔ »
اگر کوئی مرد کسی وقت ناراض ہو کر یا غصے میں آ کر یہ قسم کھا لے کہ اب میں اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا ‘ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا ‘ تو یہ ایلاء کہلاتا ہے۔ خود آنحضور نے بھی اپنی ازواجِ مطہرات سے ایلاء فرمایا تھا۔ ازواج مطہرات نے عرض کیا تھا کہ اب عام مسلمانوں کے ہاں بھی خوشحالی آ گئی ہے تو ہمار ے ہاں یہ تنگی اور سختی کیوں ہے؟ اب ہمارے بھی نفقات بڑھائے جائیں۔ اس پر رسول اللہ نے ان سے ایلاء کیا۔ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ لوگ قسم تو کھا بیٹھتے تھے کہ بیوی کے پاس نہ جائیں گے‘ مگر بعد میں اس پر پچھتاتے تھے کہ کیا کریں۔ اب وہ بیوی بے چاری معلق ّہو کر رہ جاتی ۔ اس آیت میں ایلاء کی مہلت مقرر کر دی گئی کہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک انتظار کیا جا سکتا ہے۔
فَاِنْ فَــآءُوْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ : «پس اگر وہ رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا‘ مہربان ہے۔ »
ان چار ماہ کے دوران اگر وہ اپنی قسم کو ختم کریں اور رجوع کر لیں‘ تعلق زن و شو قائم کر لیں تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔
جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں (یعنی ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالیتے ہین) ان کیلئے چار مہینے کی مہلت ہے، چنانچہ اگر وہ (قسم توڑ کر) رجوع کرلیں تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے
وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
تشریح آیت 227: وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ : «اور اگر وہ طلاق کا ارادہ کرچکے ہوں تو اللہ سننے والا‘ جاننے والا ہے۔ »
یعنی چار ماہ کا عرصہ گزر جانے پر شوہر کو بہرحال فیصلہ کرنا ہے کہ وہ یا تو رجوع کر ے یا طلاق دے۔ اب عورت کو مزید معلق ّنہیں رکھا جا سکتا۔ رجوع کی صورت میں چونکہ قسم توڑنا ہو گی لہٰذا اس کا کفارہ ادا کرنا ہو گا۔ حضرت عمر فاروق نے اپنے دورِ خلافت میں یہ حکم جاری کیا تھا کہ جو لوگ جہاد کے لیے گھروں سے دور گئے ہوں انہیں چار ماہ بعد لازمی طور پر گھر بھیجا جائے۔ آپ نے یہ حکم غالباً اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے جاری فرمایا تھا۔ اس کے لیے آپ نے اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ سے مشاورت بھی فرمائی تھی۔ اگرچہ آپ کا حضرت حفصہ سے باپ بیٹی کا رشتہ ہے‘ مگر دین کے معاملات میں شرم و حیا آڑے نہیں آتی‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْی مِنَ الْحَقِّ : (الاحزاب: ۵۳) «اوراللہ شرماتا نہیں حق بات بتلانے میں»۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ ایک عورت کتنا عرصہ اپنی عفت و عصمت کو سنبھال کر اپنے شوہر کا انتظار کر سکتی ہے؟ حضرت حفصہ نے کہا چار ماہ۔ چنانچہ حضرت عمر نے مجاہدین کے بارے میں یہ حکم جاری فرما دیا کہ انہیں چار ماہ سے زیادہ گھروں سے دُور نہ رکھا جائے۔
اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو (بھی) اﷲ سننے جاننے والا ہے