May 18, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 87

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُواْ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ 

اور ہم نے موسیٰ اور اُن کے بھائی پر وحی بھیجی کہ : ’’ تم دونوں اپنی قوم کو مصر ہی کے گھروں میں بساؤ، اور اپنے گھروں کو نماز کی جگہ بنالو، اور (اس طرح) نماز قائم کرو، اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو۔ ‘‘

 آیت ۸۷:  وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا:  «اور ہم نے وحی کی موسی ٰ اور اس کے بھائی (ہارون ) کو کہ تم اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر معین کر لو»

            ان گھروں میں جمع ہو کر تم لوگ اللہ کی عباد ت کیا کرو۔ اسی طرح کا انتظام حضور نے بھی اپنی دعوت کے ابتدائی زمانہ میں کیا تھا جب آپ نے دارِ ارقم کو دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں کے لیے مختص فرمایا تھا۔

             وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً:  «اور بناؤ اپنے گھروں کو قبلہ رخ»

            فرعون کے ڈر سے وہ لوگ مسجد تو بنا نہیں سکتے تھے، اس لیے انہیں حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں کو تعمیر ہی قبلہ رخ کرو، تا کہ وہاں تم نمازیں پڑھا کرو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بھی قبلہ معین ّتھا جبکہ بیت المقدس تو ابھی بنا ہی نہیں تھا۔ بیت المقدس تو حضرت موسیٰ کے زمانے سے ایک ہزار سال بعد حضرت سلیمان نے تعمیر فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا۔ تورات میں ان کی قربان گاہوں کے خیموں کے بارے میں تفصیل ملتی ہے کہ یہ خیمے اس طرح نصب کیے جاتے تھے کہ جب کوئی شخص قربانی پیش کرتا تھا تو اس کا رخ سیدھا قبلہ کی طرف ہوتا تھا۔

             وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ:  «اور نماز قائم رکھو، اور اہل ِایمان کو بشارت دے دو۔» 

UP
X
<>