May 18, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 94

فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ 

پھر (اے پیغمبر !) اگر (بفرضِ محال) تمہیں اُس کلام میں ذرا بھی شک ہو جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے تو اُن لوگوں سے پوچھو جو تم سے پہلے سے (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں۔ یقین رکھو کہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہی آیا ہے، لہٰذا تم کبھی بھی شک کرنے والوں میں شامل نہ ہونا

 آیت ۹۴:  فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ:  «پھر اگر آپ کو کوئی شک ہے اُس چیز کے بارے میں جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے»

            یہاں خطاب بظاہر محمد رسول اللہ  سے ہے، لیکن اس بات کا تو قطعاً کوئی امکان نہیں کہ آپ کو اس میں کوئی شک ہوتا، لہٰذا اصل میں روئے سخن اہل مکہ کی طرف ہے۔ بعض اوقات جس سے بات کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے رویے کی وجہ سے اس سے اس قدر نفرت ہو جاتی ہے کہ اسے براہِ راست مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص سے بات کی جاتی ہے تاکہ اصل مخاطب بالواسطہ طور پر اسے سن لے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اے مشرکین ِمکہ! اگر تم لوگوں کو اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے رسول پر ناز ل کی ہے:

             فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَؤُوْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ:  «تو پوچھ لیجیے ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی آپ سے پہلے۔»

             لَقَدْ جَآءَکَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ:  «(اے نبی !) آپ کے پاس حق آیا ہے آپ کے رب کی طرف سے، تو ہر گز نہ ہو جائیں آپ شک کرنے والوں میں سے۔»

            یہ اُسی اندازِ تخاطب کا تسلسل ہے کہ حضور کو مخاطب کر کے مشرکین مکہ کو سنایا جا رہا ہے۔ 

UP
X
<>