May 4, 2024

قرآن کریم > الرّعد >surah 13 ayat 31

وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَل لِّلّهِ الأَمْرُ جَمِيعًا أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُواْ أَن لَّوْ يَشَاء اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا وَلاَ يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُواْ تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُواْ قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُخْلِفُ الْمِيعَادَ 

اور اگر کوئی قرآن ایسا بھی اُترتا جس کے ذریعے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جاتے، یا اُس کی بدولت زمین شق کر دی جاتی (اور اس سے دریا نکل پڑتے) یا اُس کے نتیجے میں مردوں سے بات کر لی جاتی، (تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے) ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام تر اِختیار اﷲ کا ہے۔ کیا پھر بھی ایمان والوں نے یہ سوچ کر اپنا ذہن فارغ نہیں کیا کہ اگر اﷲ چاہتا تو سارے ہی انسانوں کو (زبردستی) راہ پر لے آتا ؟ اور جنہوں نے کفر اَپنایا ہے، ان پر تو ان کے کرتوت کی وجہ سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی کھڑ کھڑانے والی مصیبت پڑتی رہتی ہے، یا ان کی بستی کے قریب کہیں نازل ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ (ایک دن) اﷲ نے جو وعدہ کر رکھا ہے، وہ آکر پورا ہوجائے گا۔ یقین رکھو کہ اﷲ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا

 آیت ۳۱:  وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰ نًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ اَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰی: «اور اگر ہوتا کوئی ایسا قرآن جس کے ذریعے سے پہاڑ چل پڑتے، یا زمین کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے یا کلام کرتے اس کے ذریعے مردے (تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے)۔»

            یہاں پھر حسی معجزوں کے بارے میں مشرکین کے مطالبے کا جواب دیا جا رہا ہے۔ سورۃ الانعام میں یہ مضمون تفصیل سے گزر چکا ہے۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر ہم نے کوئی ایسا قرآن اتارا ہوتا جس کی تاثیر سے طرح طرح کے حسی معجزات کا ظہور ہوتا تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ یہ قرآن ہر اُس شخص کے لیے سراپا معجزہ ہے جو واقعی ہدایت کا خواہش مند ہے۔ یہ طالبانِ حق کے دلوں کو گداز کرتا ہے، ان کی روح کو تازگی بخشتا ہے، ان کے لاشعور کے اندر خوابیدہ ایمانی حقائق کو جگاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی ہدایت کا تمام سامان اس قرآن کے اندر موجود پاتے ہیں۔

             بَلْ لِّلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰہُ لَہَدَی النَّاسَ جَمِیْعًا: «بلکہ اختیار توکل کا کل ُاللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کیا اہل ایمان اس پر مطمئن نہیں ہو جاتے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟»

            اہل ایمان کو تو یہ یقین ہے نا کہ اگر اللہ چاہتا تو دنیا کے تمام انسانوں کو ہدایت دے سکتا تھا، اور اگر اُس نے ایسا نہیں کیا تو یہ ضرور اسی کی مشیت ہے۔ لہٰذا اس یقین سے اُن کو تو دل جمعی اور اطمینان حاصل ہو جانا چاہیے۔

             وَلاَ یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُہُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِہِمْ حَتّٰی یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰہِ: «اور جو کافر ہیں ان کو برابر پہنچتی رہے گی ان کے اعمال کے سبب کوئی نہ کوئی آفت، یا ان کے گھروں کے قریب اترتی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ جائے۔»

             اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ: «یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔»

            ان لوگوں کے کرتوتوں کی پاداش میں ان پر کوئی نہ کوئی آفت اور مصیبت نازل ہوتی رہے گی۔ وہ مسلسل خوف کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو جائے۔ 

UP
X
<>