May 4, 2024

قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 34

وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللَّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ 

اور تم نے جو کچھ مانگا ، اُس  نے اُس میں سے (جو تمہارے لئے مناسب تھا ) تمہیںدیا ۔ اور اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار (بھی ) نہیں کر سکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت بے انصاف ، بڑا ناشکرا ہے

 آیت ۳۴:  وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ: «اور اُس نے تمہیں وہ سب کچھ دیا جو تم نے اُس سے مانگا۔»

            یہ مانگنا شعوری بھی ہے اور غیر شعوری بھی۔ یعنی وہ تمام چیزیں بھی اللہ نے ہمارے لیے فراہم کی ہیں جن کا تقاضا ہمارا وجود کرتا ہے اورہمیں اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسان کو پوری طرح شعور نہیں ہے کہ اسے کس کس اندازمیں کس کس چیز کی ضرورت ہے اور اس کی ضرورت کی یہ چیزیں اسے کہاں کہاں سے دستیاب ہوں گی۔

            اللہ تعالیٰ نے انسان کی دُنیوی زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اسباب و نتائج کے ایسے ایسے سلسلے پیدا کر دیے ہیں جن کا احاطہ کرنا انسانی عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اللہ نے بہت سی ایسی چیزیں بھی پیدا کر رکھی ہیں جن سے انسان کی ضرورتیں انجانے میں پوری ہور ہی ہیں۔ مثلا ًایک وقت تک انسان کو کب پتا تھا کہ کون سی چیز میں کون سا وٹامن پایا جاتا ہے۔ مگر وہ وٹامنز مختلف غذاؤں کے ذریعے سے انسان کی ضرورتیں اس طرح پوری کر رہے تھے کہ انسان کو اس کی خبر تک نہ تھی۔ بہر حال اللہ ہمیں وہ چیزیں بھی عطا کرتا ہے جو ہم اس سے شعوری طور پر مانگتے ہیں اور وہ بھی جوہماری زندگی اور بقا کا فطری تقاضا ہیں۔

             وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْہَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ: اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو گے تو نہیں گن سکو گے۔ یقینا انسان بڑا ہی ظالم اور بہت نا شکرا ہے۔»

            انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو گن سکے۔ کَفّار (ک کی زبر کے ساتھ) یہاں فَعّال کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی نا شکری میں بہت بڑھا ہوا۔

UP
X
<>