May 4, 2024

قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 36

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

 میرے پروردگار ! ان بتوں نے لوگوں کی بڑی تعداد کو گمراہ کیا ہے ۔ لہٰذا جو کوئی میری راہ پر چلے ، وہ تو میرا ہے ، اور جو میرا کہنا نہ مانے ، تو (اُس کا معاملہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں ) آپ بہت بخشنے والے بڑے مہربان ہیں 

 آیت ۳۶: رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہ مِنِّیْ: «اے میرے پروردگار! ان ُبتوں نے (پہلے بھی) بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ تو جو کوئی میری پیروی کرے وہ تو ُبلاشبہ مجھ سے ہے»

            میں نے خود کو ہر قسم کے شرک سے پاک کر لیا ہے، اب جو لوگ میری پیروی کریں، شرک سے دُور رہیں، توحید کے راستے پر چلیں، ایسے لوگ تو میرے ہی ساتھی ہیں، اُن کے ساتھ تو تیرا وعدہ پورا ہو گا۔

             وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ: «اور جومیری نافرمانی کرے تو بلاشبہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔»

            حضرت ابراہیم کی طبیعت کے بارے میں ہم سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ چکے ہیں: اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ.  کہ آپ بہت ہی نرم دل، حلیم الطبع اور ہر وقت اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ چنانچہ جب گنہگاروں کا ذکر ہوا ہے تو آپ نے اللہ کی صفاتِ غفاری اور رحیمی کا ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ بالکل اسی انداز میں حضرت عیسٰی کی التجا کا ذکر سورۃ المائدۃ میں آیا ہے: اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.  یعنی پروردگار! اگر تو انہیں عذاب دے گا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں، تو جس طرح چاہے انہیں عذاب دے، تیرا اختیار مطلق ہے۔ لیکن اگر تو انہیں معاف کر دے توبھی تیرے اختیار اور تیری حکمت پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہے۔ 

UP
X
<>