May 2, 2024

قرآن کریم > الحجر >surah 15 ayat 26

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ 

ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا

 آیت ۲۶:  وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ: «اور یقینا ہم نے بنایا ہے انسان کو سنے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے۔»

            حَمَاٍ مَسْنُون: سے سَنا ہوا گارا مراد ہے، جس سے بدبو بھی اُٹھ رہی ہو۔ اس رکوع میں یہ ثقیل اصطلاح تین مرتبہ استعمال ہوئی ہے۔ انسان کے ماده تخلیق کے حوالے سے قرآن میں جو مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر تُراب یعنی مٹی کا ذکر ہے، چنانچہ فرمایا: وَمِنْ اٰیٰتِہ اَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ …: ( الروم:۲۰)۔ مٹی میں پانی مل کر گارا بن جائے تو اس گارے کو عربی میں «طِین» کہتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی تخلیق کے سلسلے میں طین کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورۃ الاعراف میں ہم شیطان کا یہ قول پڑھ آئے ہیں: خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہ مِنْ طِیْنٍ.  «مجھے تو نے بنایا آگ سے اور اس (آدم) کو بنایا مٹی سے»۔ طین کے بعد «طین لازب» کا مرحلہ ہے۔ سورۃ الصّٰفٰت میں فرمایا گیا: اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ.  «طین لازب» اصل میں وہ گارا ہے جو عمل ِتخمیر (fermentation) کی وجہ سے لیس دار ہو چکا ہو۔ عام طور پر گارے میں کوئی organic matter بھوسہ وغیرہ ملانے سے اس کی یہ شکل بنتی ہے۔ «طین لازب» کے بعد اگلا مرحلہ «حماٍ مسنون» کا ہے۔ اگر لیس دار گارا زیادہ دیر تک پڑا رہے اور اس میں سڑاند پیدا ہو جائے تو اس کو «حماٍ مسنون» کہا جاتا ہے۔ پھر اگر یہ سنا ہوا گارا (حماٍ مسنون) خشک ہو کر سخت ہو جائے تو یہ کھنکنے لگتا ہے۔ آپ نے کسی دریا کے ساحل کے قریب یا کسی دلدلی علاقے میں دیکھا ہو گا کہ زمین کے اوپر خشک پپڑی سی آ جاتی ہے، جس پر چلنے سے یہ آواز پیدا کر کے ٹوٹتی ہے۔ ایسی مٹی کے لیے قرآن نے «صَلْصَالٍ کَالْفَخَّار» (الرحمن: ۱۴) کی اصطلاح استعمال کی ہے، یعنی ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی۔

            انسان کے مادہ تخلیق کے لیے مندرجہ بالا تمام الفاظ میں سے صرف ایک بنیادی لفظ ہی کفایت کر سکتا تھا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا، لیکن اس ضمن میں ان مختلف الفاظ (تُرَاب، طِین، طِین لازب، صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون اور صَلصالٍ کالفَخَّار) کے استعمال میں یقینا کوئی حکمت کارفرما ہو گی۔ ممکن ہے یہ تخلیق کے مختلف مراحل (stages) کا ذکر ہو اور اگر ایسا ہے تو نظریہ ارتقاء (Evolution Theory) کے ساتھ بھی اس کی تطبیق (corroboration) ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ انسان کی تخلیق اگر خصوصی طور پر بھی عمل میں آئی ہو تو ہو سکتا ہے کہ باقی حیوانات ارتقائی انداز میں پیدا کیے گئے ہوں۔ بہر حال زمین کی حیوانی حیات کے بارے میں سائنس بھی قرآن سے متفق ہے کہ یہ تمام مخلوق مٹی اور پانی سے بنی ہے۔ ادھر قرآن فرماتا ہے کہ مبدأ حیات پانی ہے اور اس سلسلے میں سائنس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ساحلی علاقوں میں مٹی اور پانی کے اتصال سے دلدل بنی، پھر اس دلدل کے اندر عمل تخمیر (fermentation) کے ذریعے سڑاند پیدا ہوئی تو وہاں ایلجی (Algai) یا امیبا (Amoeba) کی صورت میں نباتاتی یا حیوانی حیات کا آغاز ہوا۔ چنانچہ سائنسی تحقیق یہاں قرآن سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے، گویا:ع   «متفق گردید  رائے بو علی با رائے من!»

UP
X
<>