April 26, 2024

قرآن کریم > الحجر >surah 15 ayat 3

ذَرْهُمْ يَأْكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ 

(اے پیغمبر !) انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو کہ یہ خوب کھالیں ، مزے اُڑالیں ، اور خیالی امیدیں انہیں غفلت میں ڈالے رکھیں ، کیونکہ عنقریب اُنہیں پتہ چل جائے گا (کہ حقیقت کیا تھی)

 آیت ۳:  ذَرْہُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا: « (اے نبی!) چھوڑ دیجیے ان کو، یہ کھا پی لیں اور فائدہ اٹھالیں»

            زمین میں جو مہلت انہیں ملی ہوئی ہے اس میں خوب مزے کر لیں۔

             وَیُلْہِہِمُ الْاَمَلُ: «اور (لمبی لمبی) امیدیں ان کو غافل کیے رکھیں »

            اَلْھٰی، یُلْھِی، اِلْھَاءً کے معنی ہیں غافل کردینا۔ سورۃ التکاثر میں فرمایا گیا: اَلْہٰـکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ: «غافل کیے رکھا تمہیں کثرت کی خواہش کے مقابلے نے، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں»۔ انسان کے لمبے لمبے منصوبے بنانے کو «طول ِاَمل» کہتے ہیں۔ جب انسان اس گورکھ دھندے میں پڑ جائے، تو خواہشوں اور آرزوؤں کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا، مگر زندگی ختم ہو جاتی ہے۔حدیث نبوی ہے: «مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی» یعنی اگر کوئی شے کم ہے لیکن آپ کو کفایت کر جائے، آپ کی ضرورت اس سے پوری ہو جائے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو آپ کی ضرورت سے زیادہ ہو اور آپ کو اپنے خالق اور مالک کی یاد سے غافل کر دے۔

            اگر مال و دولت کی ریل پیل ہے، رزق اور سامانِ آسائش کی فراوانی ہے، کبھی کوئی حاجت پریشان نہیں کرتی، کوئی محرومی، کوئی نارسائی اللہ کی یاد تازہ کرنے کا سبب نہیں بنتی، تو ایسی حالت میں رفتہ رفتہ انسان کے بالکل غافل ہو جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ اتنا ملے جس سے ضرورت پوری ہو جائے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس قدر فراوانی نہ ہو کہ غفلت غلبہ پا لے۔

             فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ: «تو عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔»

UP
X
<>