May 2, 2024

قرآن کریم > الحجر >surah 15 ayat 94

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ 

لہٰذا جس بات کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے، اُسے علی الاعلان لوگوں کو سنادو، اور جو لوگ (پھر بھی) شرک کریں ، اُن کی پروا مت کرو

 آیت ۹۴:  فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ: «اب آپ علی الاعلان بیان کریں جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اور ان مشرکوں کی ذرا پروا نہ کریں۔»

            اس حکم کو رسول اللہ کی دعوتی تحریک میں ایک نئے موڑ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے قبل آپ اپنے قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کو انفرادی طور پر دعوت دے رہے تھے، جیسے آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ سے بات کی، اپنے پرانے دوست حضرت ابو بکر صدیق کو دعوت دی، اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو اعتماد میں لیاجو آپ کے زیر کفالت بھی تھے اور اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید سے بھی بات کی۔ آپ کی اس انفرادی دعوت کا سلسلہ ابتدائی طور پر تقریباً تین سال پر محیط نظر آتا ہے۔ بعض لوگ اس دور کی دعوت کو ایک خفیہ (underground) تحریک سے تعبیر کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں۔ اعلانِ نبوت کے بعد آپ کی سیرت میں کوئی دن بھی ایسا نہیں آیا جس میں آپ نے اپنی اس دعوت کو خفیہ رکھا ہو، مگر ایسا ضرور ہے کہ آپ کی دعوت فطری اور تدریجی انداز میں آگے بڑھی اور آہستہ آہستہ ارتقا پذیر ہوئی۔

            اس دعوت کا آغاز گھر سے ہوا، پھر آپ تعلق اور قرابت داری کی بنیاد پر مختلف افراد کو انفرادی انداز میں دعوت دیتے رہے اورپھر تقریباً تین سال کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ اب آپ علی الاعلان یہ دعوت دینا شروع کر دیں۔ اس حکم کے بعد آپ نے ایک دن عرب کے رواج کے مطابق کوہِ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو اونچی آواز سے اپنی طرف بلانا شروع کیا۔ عرب میں رواج تھا کہ کسی اہم خبر کا اعلان کرنا ہوتا تو ایک آدمی اپنا پورا لباس اتارتا، بالکل ننگا ہو کر کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتا اور «وَا صَبَاحَا»  کا نعرہ لگاتا، کہ ہائے وہ صبح جو آیا چاہتی ہے! یعنی میں تم لوگوں کو آنے والی صبح کی خبر دینے والا ہوں! اس زمانے میں ایسی خبر عام طور پر کسی مخالف قبیلہ کے شب خون مارنے کے بارے میں ہوتی تھی کہ فلاں قبیلہ آج صبح سویرے تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔ ایسے شخص کو «نذیر عریاں» کہا جاتا تھا۔ اس رواج کے مطابق (لباس اتارنے کی بیہودہ رسم کو چھوڑ کر) آپ نے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر «وَا صَبَاحَا» کا نعرہ لگایا۔ جس جس نے آپ کی آواز سنی وہ بھاگم بھاگ آپ کے پاس آ پہنچا کہ آپ کوئی اہم خبر دینے والے ہیں۔ جب سب لوگ اکٹھے ہو گئے تو آپ نے ان کے سامنے اللہ کا پیغام پیش کیا، جس کے جواب میں آپ کے بدبخت چچا ابو لہب نے کہا: تَــبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟٭ «تمہارے لیے ہلاکت ہو (نعوذ باللہ) اس کام کے لیے تم نے ہمیں جمع کیا تھا؟» دعوت کو ڈنکے کی چوٹ بیان کرنے کے اس حکم اور اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی۔

UP
X
<>