May 18, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 97

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ

جس نے کیا نیک کام مرد ہو یا عورت ہو اور وہ ایمان پر ہے تو اس کو ہم زندگی دیں گے ایک اچھی زندگی ، اور بدلے میں دیں گے ان کو حق ان کا بہتر کاموں پر جو کرتے تھے.

 آیت ۹۷:  مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَواُنْثٰی وَہُو مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً:  «جس کسی نے بھی نیک عمل کیا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مؤمن تو ہم اسے (دُنیا میں) ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔»

            ایسے لوگ بے شک دنیا میں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کریں مگر انہیں سکون قلب کی دولت نصیب ہوگی، ان لوگوں کے دل غنی ہوں گے، کیونکہ حضور کا فرمان ہے: «اَلْـغِنٰی غِنَی النَّـفْسِ» کہ اصل امیری تو دل کی امیری ہے۔ اگر انسان کا دل غنی ہے تو انسان واقعتا غنی ہے اور اگر ڈھیروں دولت پا کر بھی دل لالچ کے پھندے میں گرفتار ہے تو ایسا شخص دراصل غنی یا امیر نہیں، فقیر ہے۔ چنانچہ نیکوکار انسانوں کو دُنیوی زندگی میں ہی غنا اور سکونِ قلب کی نعمت سے نوازا جائے گا، کیونکہ یہ نعمت تو ثمرہ ہے اللہ کی یاد کا:  اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ:  (الرعد) «آگا ہ رہو! دل تو اللہ کے ذکر ہی سے مطمئن ہوتے ہیں»۔ ایسے لوگوں کا شمار اللہ کے دوستوں اور اولیاء میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ خصوصی شفقت کا معاملہ فرمایا جاتا ہے اور انہیں حزن وملال کے سایوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے:  اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ:  (یونس) «آگاہ رہو! یقینا اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔»

             وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ:  «اور (آخرت میں) ہم انہیں ضرور دیں گے ان کے اجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق۔» 

UP
X
<>